تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 204تا206) ➊ اوپر کی آیات میں وَ مِنَ النَّاسِ سے لے کر یہاں تک دو قسم کے لوگ ذکر کیے، یعنی طالب دنیا اور طالب دنیا و آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں چند ایسے چال باز لوگ تھے (اور ہمیشہ رہے ہیں)، ان آیات میں ان کی صفات بیان فرما کر ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (قرطبی، فتح القدیر) تفاسیر میں گو ان آیات کا سبب نزول اخنس بن شریق ثقفی کو بیان کیا گیا ہے، مگر الفاظ کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جس میں یہ پانچوں صفات پائی جائیں۔ (کبیر) علاوہ ازیں وہ تمام روایات جن میں اس آیت کے اخنس کے بارے میں اترنے کا ذکر ہے ضعیف ہیں۔ (دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) اس لیے یہ آیت عام ہے۔

➋ ایسے منافق کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی سے متعلق بہت سی معلومات رکھتا ہے، اس موضوع پر بات کرے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ آخرت پر نہ وہ بات کرتا ہے نہ اسے اس کا علم ہے۔ (دیکھیے الروم: ۶، ۷) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر سخت دل متکبر، بخیل پیٹو سے بغض رکھتا ہے جو بازاروں میں شور کرنے والا ہے، رات کو مردار اور دن کو گدھا ہے، دنیا کے معاملات کا عالم ہے، آخرت کے معاملات سے جاہل ہے۔ [ صحیح ابن حبان: ۱۹۵۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۹۵]

دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان و اخلاص کا یقین دلاتا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے ہاں اپنے بے اعتبار ہونے کو خوب سمجھتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ منافقون کی ابتدائی آیات)

تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اَلَدُّ الْخِصَامِ ہے۔ اَلَدُّ کا معنی سخت جھگڑالو ہے۔ الْخِصَامِ یا تو باب مفاعلہ کا مصدر ہے، اس صورت میں معنی ہو گا جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، یا خَصْمٌ (جھگڑنے والا) کی جمع ہے، معنی ہو گا جھگڑنے والوں میں سے بہت سخت جھگڑالو ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب آدمیوں سے زیادہ مبغوض اَلْاَلَدُّ الْخَصِمُ (سخت جھگڑا لو) ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «وہو ألد الخصام» ‏‏‏‏: ۴۵۲۳۔ مسلم: ۲۶۶۸] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک یہ بیان فرمائی: وہ جب جھگڑتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب علامۃ المنافق: ۳۴۔ مسلم: ۵۸ ] چوتھی صفت یہ ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے پاس اپنے اخلاص کی قسمیں کھا کر واپس جاتا ہے تو تخریبی کارروائیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد اور کھیتوں اور جان و مال کو برباد کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ تَوَلّٰى کا ایک معنی ہے وہ واپس جاتا ہے اور دوسرا معنی ہے جب وہ والی یعنی حاکم یا صاحبِ اقتدار بنتا ہے۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے لیے کہا جائے تو اس کی (جھوٹی) عزت اور غرورِ نفس اسے گناہ میں پھنسائے رکھتا ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.