تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 231) فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ: اس کا مطلب عدت ختم ہونا نہیں بلکہ عدت ختم ہونے کے قریب ہونا ہے۔ اس کی دلیل پیچھے گزرا ہوا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: «وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِيْ ذٰلِكَ» [ البقرۃ: ۲۲۸ ] اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔

➋ یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو تو ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے تمھیں رجوع کا حق پہنچتا ہے، مگر یہ رجوع محض انھیں ستانے اورنقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو، کیونکہ ایسا کرنا ظلم و زیادتی اور احکامِ الٰہی سے مذاق کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جنھیں کوئی سنجیدگی سے کہے تو وہ سنجیدہ ہیں اور ہنسی مذاق میں کہے تب بھی وہ سنجیدہ ہیں، نکاح، طلاق اور رجوع۔ [ أبو داوٗد، الطلاق، باب فی الطلاق علی الھزل: ۲۱۹۴۔ ابن ماجہ: ۲۰۳۹۔ ترمذی، ابن حجر، سیوطی اور البانی رحمھم اللہ نے اسے حسن کہا ہے ]

مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ: یہاں الْحِكْمَةِ سے مراد سنت ہے، یعنی کتاب و سنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھولو۔ یہ دونوں وحی الٰہی ہیں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ لہٰذا منکرِ حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکرِ قرآن کا ہے، مطلب یہ کہ ان آیات میں بیان کردہ گھریلو مسائل کو حدیث پاک کی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.