تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 249)فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ: بِالْجُنُوْدِ (لشکروں) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد لڑنے کے لیے نکلی تھی۔ طالوت نے ان کی اطاعت، جفاکشی، بھوک پیاس اور میدانِ جنگ میں صبر کا امتحان لینا ضروری سمجھا، تاکہ صرف وہ شخص ساتھ جائے جس میں یہ صفات موجود ہوں، مگر اس امتحان میں تھوڑے سے لوگ کامیاب ہوئے، باقی نا کام ہو گئے۔ کامیاب ہونے والے نہر سے پار ہوئے تو دشمن کی تعداد دیکھ کر ان میں سے کچھ کمزور ایمان والے کہہ اٹھے کہ ہم میں آج جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلے کی طاقت نہیں، مگر پختہ ایمان والوں نے، جنھیں اللہ سے ملاقات کا یقین تھا، ان کی ہمت بندھائی کہ لڑائی میں قلت و کثرت فیصلہ کن نہیں ہوتی، اللہ کا حکم فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو تھوڑی جماعتیں صبر و استقامت کی وجہ سے بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہیں، کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اس قسم کے بے شمار واقعات موجود ہیں۔ بدر، احد، خندق کو دیکھ لیجیے۔ جنگ موتہ میں مسلمان تین ہزار اور دشمن دو لاکھ تھا۔ (الرحیق المختوم، معرکہ موتہ)

➋ براء بن عازب رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں، مجھے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا، جو بدر میں شریک تھے کہ ان کی تعداد طالوت کے ساتھیوں کے برابر تھی جو نہر سے پار ہوئے تھے، تین سو دس سے کچھ زیادہ۔ براء کہتے ہیں، اللہ کی قسم! اس کے ساتھ کسی مومن کے سوا کوئی پار نہیں ہوا۔ [ بخاری، المغازی، باب عدۃ أصحاب بدر: ۳۹۵۷ ]



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.