تفسير ابن كثير



تعارف ابلیس ٭٭

حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔ [مستدرک حاکم:261/2:صحیح] ‏‏‏‏ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لیے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لیے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ» [ 18-الكهف: 50 ] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں آئے گی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:502/1] ‏‏‏‏ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔

حسن فرماتے ہیں ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے۔ سعد بن مسعود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا جان یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔ [12-يوسف:100] ‏‏‏‏ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا۔

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔ [سنن ابن ماجه:1852، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ امام رازی رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا۔ آدم بطور قبلہ [ یعنی سمت ] ‏‏‏‏ کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ» [ 17۔ الاسرآء: 78 ] ‏‏‏‏ لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سجدہ آدم علیہ السلام کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔

امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ [صحیح مسلم:91:صحیح] ‏‏‏‏ اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔ یہاں «کان صار» کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت «فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ» [11-هود:43] ‏‏‏‏ اور آیت «فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» [7-الأعراف:19] ‏‏‏‏ شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔

قرطبی رحمہ اللہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لیے کہ ہم اس بات کا کسی کے لیے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئیے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ» [44-الدخان:10] ‏‏‏‏ کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دُخْ۔ [صحیح بخاری:1354:صحیح] ‏‏‏‏

بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے مارا۔ [صحیح مسلم:2932:صحیح] ‏‏‏‏ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ۔ [صحیح بخاری:7122:صحیح] ‏‏‏‏ سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہما اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت «فَسَجَدَ الْمَلٰىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ» [ 15۔ الحجر: 31-30 ] ‏‏‏‏ یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر «کلھم» سے تاکید کرنا پھر «اجمعون» کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.