تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 169)اس آیت میں منافقین کے اس شبہ کی کہ جہاد میں شامل ہونا خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ایک دوسرے طریقے سے تردید کی ہے۔ فرمایا، نہیں بلکہ اس سے دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے، شہداء کو اللہ کے ہاں بلند درجے ملتے ہیں، پروردگار کے ہاں انھیں ہر قسم کی نعمت اور لذت حاصل ہوتی ہے، یہ زندگی حقیقی زندگی ہے مگر دنیا والی زندگی نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو تمھاری نگاہ سے اوجھل ہے، جسے برزخ کہتے ہیں اور جو تمھاری سمجھ میں نہیں آ سکتی، فرمایا: «وَ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ» [ البقرۃ: ۱۵۴ ] اور لیکن تم (اس زندگی کو) نہیں سمجھتے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کریمہ «وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا» سے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان (شہداء) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرشِ الٰہی کے ساتھ قندیلیں معلق ہوتی ہیں، وہ جنت میں جہاں سے چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر عرش کے نیچے لٹکی ہوئی انھی قندیلوں میں آکر رہتی ہیں۔ [ مسلم، الإمارۃ، باب بیان أن أرواح الشھداء فی الجنۃ…: ۱۸۸۷ ]



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.