تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 194)رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا: یعنی تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے سے ان کی تصدیق اور اتباع کرنے پر دنیا اور آخرت میں جس نصرت اور اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ہمیں عطا فرما۔

اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ: یعنی ہمیں یہ ڈر تو نہیں کہ تو وعدہ خلافی کرے گا، بلکہ ہمیں ڈر اپنے ہی اعمال سے ہے کہ یہ اچھے نہیں ہیں، کہیں ہماری رسوائی کا باعث نہ بنیں، اگر تو اپنی رحیمی و کریمی اور غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما دے اور ہمیں رسوائی سے بچا لے تو ہماری عین سرفرازی اور تیری بندۂ نوازی ہے۔ پس کلمہ «‏‏‏‏اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ» سے مقصد عاجزی، خشوع اور بندگی کا اظہار ہے نہ کہ اس کا مطالبہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ خلافی تو محال ہے، پھر مومن اس کا تصور کیسے کر سکتے ہیں۔ (رازی) دعا اور اس کی قبولیت کا یہ وعدہ ایمان اور عمل صالح پر ہے، دعا میں اس کا وسیلہ بھی پیش کر سکتے ہیں، جیسا کہ غار میں پھنس جانے والے تین آدمیوں نے کیا تھا، البتہ دعا کی قبولیت کے لیے کسی نیک ہستی کو وسیلہ بنانا کہ یا اللہ! فلاں کے طفیل میری یہ مشکل حل فرما دے، قرآن و حدیث میں مذکور دعا ؤ ں کے خلاف ہے۔ ہاں، کسی زندہ آدمی سے دعا کروائی جا سکتی ہے اور یہ سنت سے ثابت ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.