تفسير ابن كثير



اعزاز خلیل کیوں اور کیسے ملا؟ ٭٭

اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا ملت ابراہیم حنیف علیہ السلام کی پیروی کرو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے قدم بہ قدم چلنے والوں کی بھی جو قیامت تک ہوں، جیسے اور آیت میں ہے «إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا» [3-آل عمران:68] ‏‏‏‏ یعنی ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے اور نبی ہوئے۔

دوسری آیت میں فرمایا «ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [16-النحل:123] ‏‏‏‏ پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرک نہ تھے حنیف کہتے ہیں قصداً شرک سے بیزار اور پوری طرح حق کی طرف متوجہ ہونے والا جسے کوئی روکنے والا روک نہ سکے اور کوئی ہٹانے والا ہٹا نہ سکے۔

پھر خلیل اللہ علیہ السلام کی اتباع کی تاکید اور ترغیب کے لیے ان کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ کے دوست ہیں، یعنی بندہ ترقی کر کے جس اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکتا ہے اس تک وہ پہنچ گئے خلت کے درجے سے کوئی بڑا درجہ نہیں محبت کا یہ اعلیٰ تر مقام ہے اور یہاں تک ابراہیم علیہ السلام عروج کر گئے ہیں اس کی وجہ ان کی کامل اطاعت ہے جیسے فرمان ہے «وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ» [53-النجم:37] ‏‏‏‏ یعنی ابراہیم کو جو حکم ملا وہ اسے بخوشی بجالائے

کبھی اللہ کی مرضی سے منہ نہ موڑا، کبھی عبادت سے نہ اکتائے کوئی چیز انہیں عبادت الہیہ سے مانع نہ ہوئی . اور آیت میں ہے «وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ» [2-البقرة:124] ‏‏‏‏ جب جب جس جس طرح اللہ عزاسمہ نے ان کی آزمائش لی وہ پورے اترے جو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے کر دکھایا۔

فرمان ہے کہ «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ» ‏‏‏‏ [16-النحل:122] ‏‏‏‏ ابراہیم علیہ السلام مکمل یکسوئی سے توحید کے رنگ میں شرک سے بچتا ہوا ہمارا تابع فرمان بنا رہا۔

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن میں صبح کی نماز میں جب یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے کہا «‏‏‏‏لقدقررت عین ام ابراہیم» ابراہیم کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ [صحیح بخاری:4348] ‏‏‏‏

بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیل اللہ لقب کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر آپ اپنے ایک دوست کے پاس مصر میں یا موصل میں گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج غلہ لے آئیں یہاں کچھ نہ ملا خالی ہاتھ لوٹے جب اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا آؤ اس ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلو تاکہ گھر والوں کو قدرے تسکین ہو جائے چنانچہ بھر لیں اور جانوروں پر لاد کے لے چلے .

اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ رہے تھکے ہارے تو تھے ہی آنکھ لگ گئی گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھرا ہوا پایا آٹا گوندھا روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا؟ جو تم نے روٹیاں پکائیں انہوں نے کہا آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا ہاں یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں

پس اللہ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور خلیل اللہ نام رکھ دیا، لیکن اس کی صحت اور اس واقعہ میں ذرا تامل ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی روایت ہے جسے ہم سچا نہیں کہہ سکتے گو جھٹلا بھی نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت حد درجہ کی تھی کامل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری تھی اپنی عبادتوں سے اللہ تعالیٰ کو خوش کر لیا تھا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا، لوگو اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو خلیل اور ولی دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو بناتا بلکہ تمہارے ساتھی اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں، [صحیح مسلم:2383] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے اللہ اعلیٰ واکرم نے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنا لیا تھا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل کر لیا ہے۔ [صحیح مسلم:532] ‏‏‏‏

ایک مرتبہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے آپس میں ذکر تذکرے کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا تعجب ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا دوسرے نے کہا اس سے بھی بڑھ کر مہربانی یہ کہ موسیٰ علیہ السلام سے خود باتیں کیں اور انہیں کلیم بنایا، ایک نے کہا اور عیسیٰ علیہ السلام تو روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہے، ایک نے کہا آدم علیہ السلام صفی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر تشریف لائے سلام کیا اور یہ باتیں سنیں تو فرمایا بیشک تمہارا قول صحیح ہے، ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اور آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر میں حقیقت بیان کرتا ہوں کچھ فخر کے طور پر نہیں کہتا کہ میں حبیب اللہ ہوں، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا جانے والا ہوں اور سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دینے والا ہوں اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ مومن فقراء ہوں گے قیامت کے دن تمام اگلوں پچھلوں سے زیادہ اکرام و عزت والا ہوں یہ بطور فخر کے نہیں بلکہ بطور سچائی کو معلوم کرانے کیلئے میں تم سے کہہ رہا ہوں . [الدر المنثور للسیوطی:407/2:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض شاہد موجود ہیں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو کہ خلت صرف ابراہیم علیہ السلام کے لیے تھی اور کلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا اور دیدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین (‏‏‏‏مستدرک حاکم) اسی طرح کی روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم اور سلف وخلف سے مروی ہے۔

ابن ابی حاتم میں ہے ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ مہمانوں کے ساتھ کھائیں۔ ایک دن آپ مہمان کی جستجو میں نکلے لیکن کوئی نہ ملا واپس آئے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے پوچھا اے اللہ کے بندے تجھے میرے گھر میں آنے کی اجازت کس نے دی؟ اس نے کہا اس مکان کے حقیقی مالک نے، پوچھا تم کون ہو؟ کہا میں ملک الموت ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں اسے یہ بشارت سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا خلیل بنا لیا ہے۔

یہ سن کر ابراہیم علیہ السلام نے کہا پھر تو مجھے ضرور بتائیے کہ وہ بزرگ کون ہیں؟ اللہ عزوجل کی قسم اگر وہ زمین کے کسی دور کے گوشے میں بھی ہوں گے میں ضرور جا کر ان سے ملاقات کروں گا پھر اپنی باقی زندگی ان کے قدموں میں ہی گزاروں گا یہ سن کر ملک الموت نے کہا کہ وہ شخص خود آپ ہیں۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کیا سچ مچ میں ہی ہوں؟ فرشتے نے کہا ہاں آپ ہی ہیں۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ آپ مجھے یہ بھی بتائیں گے کہ کس بنا پر کن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا؟ فرشتے نے فرمایا اس لیے کہ تم ہر ایک کو دیتے رہتے ہو اور خود کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے۔

اور روایت میں ہے۔ جب ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خلیل اللہ کے ممتاز اور مبارک لقب سے اللہ نے ملقب کیا تب سے تو ان کے دل میں اس قدر خوف رب اور ہیبت رب سما گئی کہ ان کے دل کا اچھلنا دور سے اس طرح سنا جاتا تھا جس طرح فضا میں پرندے کے پرواز کی آواز۔

صحیح حدیث میں جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وارد ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آپ پر غالب آ جاتا تھا تو آپ کے رونے کی آواز جسے آپ ضبط کرتے جاتے تھے اس طرح دور و نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی جیسے کسی ہنڈیا کے کھولنے کی آواز ہو ۔ [سنن ترمذي:322،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت میں اور اس کی غلامی میں اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جس طرح جب جو تصرف ان میں وہ کرنا چاہتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے بلامشورہ غیرے اور بغیر کسی کی شراکت اور مدد کے کر گذرتا ہے کوئی نہیں جو اس کے ارادے سے اسے باز رکھ سکے کوئی نہیں جو اس کے حکم میں حائل ہو سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی کو بدل سکے وہ عظمتوں اور قدرتوں والا وہ عدل وحکمت والا وہ لطف و رحم والا واحد وصمد اللہ ہے۔

اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو گھیرے ہوئے ہے، مخفی سے مخفی اور چھوٹی سے چھوٹی اور دور سے دور والی چیز بھی اس پر پوشیدہ نہیں، ہماری نگاہوں سے جو پوشیدہ ہیں اس کے علم میں سب ظاہر ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.