تفسير ابن كثير



اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں ٭٭

«الله» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمَـٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «الله» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں۔

بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلُّه»، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِه» «يَأْلَهُ»، «إِلَاهَةً» اور «تَأَلُّهًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَيَذَرَكَ وَإِلَاهَتَكَ» پڑھتے تھے، مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔

مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» [6-الأنعام:3] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں“۔

اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَـٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَـٰهٌ» [43-الزخرف:84] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے“۔

سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاهٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاهٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔

عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَهُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لَـٰكِنَّا هُوَ اللَّـهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا» [18-الكهف:38] ‏‏‏‏ میں «لَكِنَّ أَنَا» کا «لَكِنَّا» ہوا ہے۔

چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَكِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِهَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَيَّرَ» ہیں «وَلَهُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِهٌ» اور «امْرَأَةٌ وَلْهَى» اور «مَاءٌ مُولَهٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔

چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاهُ» تھا۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَةٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَةٌ» کہتے ہیں۔

رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِهْتُ إِلَى فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَكَنْتُ» کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: «اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ» [13-الرعد:18] ‏‏‏‏ یعنی ”ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں“۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاهَ يَلُوهُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِهَ الْفَصِيلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِهَ الرَّجُلُ يَأْلُهُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں۔

جیسے کہ قرآن کریم میں ہے: «وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ» [23-المؤمنون:89] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا“۔ «وَهُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے،

فرماتا ہے «وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ» [16-النحل:53] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں“، وہی «مُطْعِمُ» ہے،

فرمایا ہے «وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ» [6-الأنعام:14] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا“۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّـهِ» [4-النساء:78] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے“۔

رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں۔

پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے «اللَّهُ»، «الرَّحْمَنُ»، «الرَّحِيمُ»، «الْمَلِكُ»، «الْقُدُّوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللہ» [14-إبراهيم:1-2] ‏‏‏‏ الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا» [19-مريم:65] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟“ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔

غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاهً» کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاهَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور «الْإِلَهُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّهَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَيَذَرك وَإِلَاهَتك» اس کی اصل «الْإِلَه» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ «الله» کی تھی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.