تفسير ابن كثير



سفر ارضی کا آغاز ٭٭

لفظ «عن» سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت «يُؤْفَكُ عَنْهُ» میں۔ [51-الذاريات:9] ‏‏‏‏ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے، تاہم ہم انہیں سورۃ الاعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔

ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:139/1] ‏‏‏‏ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقیناً میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آدم علیہ السلام نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ [مستدرک حاکم: 542/2: حسن] ‏‏‏‏ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم ہند میں اترے، آپ علیہ السلام کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہند کے شہر دھنا میں اترے تھے۔ [مستدرک حاکم: 542/2: ضعیف] ‏‏‏‏ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:131/1] ‏‏‏‏ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام ہند میں اور مائی حوا جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:132/1] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ آدم علیہ السلام صفا پر اور حواء مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ [مستدرک حاکم543/2:موقوف] ‏‏‏‏ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ [صحیح مسلم:854:صحیح] ‏‏‏‏

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہیئے کہ ذرا سی لغزش پر آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھئیے! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔

اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھا نہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی رحمہ اللہ نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.