تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 102) قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ …: یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیاء سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو بجا نہ لاتے، اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہرتے۔ یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرتِ سوال سے پیش آتی۔ ان کی اس روش کی متعدد مثالیں سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو۔ تو ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے۔ پھر فرمایا: مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمھیں چھوڑے رکھوں، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اپنے سوالوں کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوئے، تو جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا کر سکو کرو اور جب میں تمھیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اسے چھوڑ دو۔ [مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر: ۱۳۳۷ ]



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.