تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 33) قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ …: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا آپ کی قوم کے تمام لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے، لیکن جونہی آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور انھیں اللہ کی آیات سنانا شروع کیں تو ان میں سے اکثر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور آپ کو (نعوذ باللہ) جھوٹا قرار دینے لگے۔ ابو سفیان جو بدر، احد اور خندق کی جنگ کا باعث تھا، اس سے رومی بادشاہ ہرقل نے پوچھا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کبھی جھوٹ بولا ہے، تو اس نے کافر ہونے کے باوجود جواب دیا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں، وہ حقیقت میں آپ کو نہیں بلکہ ہماری آیات کو جھٹلا رہے ہیں، کیونکہ شخصی لحاظ سے تو آپ کو جھٹلا ہی نہیں سکتے، آپ کے نبوت سے پہلے کے چالیس سال اس کا ثبوت ہیں۔ ان سے مراد دراصل وہ کفار ہیں جو بشر کے نبی اور رسول ہونے کو محال سمجھتے تھے۔ (ابن کثیر، رازی)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.