تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 59) وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ …: یعنی خلق میں سے کسی ایک کو بھی غیبی امور کا علم نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجومی یا پنڈت یا رمال اور جفار جو اپنی غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو آئندہ پیش آنے والی باتیں بتاتے ہیں، وہ سب جھوٹے اور ٹھگ ہیں اور ان کے پاس جانا کسی مسلمان کا کام نہیں ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ نمل (۶۵)۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیب کی کنجیاں پانچ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا: «اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ» ‏‏‏‏ [ لقمان: ۳۴ ] بے شک اللہ اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ [ بخاری، التفسیر، باب: «وعندہ مفاتح الغیب…»: ۴۶۲۷ ]

اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ: یعنی اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور پوشیدہ سے پوشیدہ چیز لوح محفوظ میں درج ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.