تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 33)وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ: یعنی جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان پر کبھی عذاب بھیجنے والا نہیں، کیونکہ اس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان کا رسول اور ایمان والے ان میں موجود رہتے ہیں۔ چنانچہ نوح، ہود، صالح اور لوط علیھم السلام کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ قوم لوط کے متعلق فرمایا: « فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ » [ الذاریات: ۳۵ ] ہم نے اس بستی سے جو بھی مومن تھا نکال لیا۔ اسی طرح نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ تمام اہل ایمان کو کشتی میں بٹھا لو، پھر عذاب بڑھنا شروع ہوا۔ دیکھیے سورۂ ہود (۴۰) اور سورۂ مومنون (۲۷)

وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ …: یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے گناہوں پر نادم ہو کر استغفار کرتی رہتی ہے وہ اسے ہلاک نہیں کرتا۔ یہاں فرمایا: جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔ اس کی دو توجیہیں زیادہ معتبر ہیں، ایک تو یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کر جانے کے بعد بھی کچھ مسلمان مجبوراً مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اپنے رب سے استغفار کرتے رہتے تھے، ان کے استغفار کی برکت سے اہل مکہ پر عذاب نہیں آیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: « لَوْ تَزَيَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا » [ الفتح: ۲۵ ] اگر وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہو گئے ہوتے تو ہم ضرور ان لوگوں کو جنھوں نے ان میں سے کفر کیا تھا، عذاب دیتے دردناک عذاب۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسے لوگ موجود تھے جو آئندہ چل کر مسلمان ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں گے، اس لیے ان پر ایسا عذاب نہیں آ سکتا تھا جو سب کو سرے سے فنا کر ڈالے۔ اس توجیہہ کی طرف اشارہ بھی سورۂ فتح (۲۵) میں موجود ہے: « لِيُدْخِلَ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَآءُ » تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.