تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت32)يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ …: اللہ کے نور سے مراد اسلام اور اس کے صدق کے دلائل ہیں جو بے انتہا روشن ہیں۔ اس آیت میں یہودو نصاریٰ کی تیسری قبیح صفت کا بیان ہے کہ وہ اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسے مٹانے کے لیے ہر قسم کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ان کی اسلام کو روکنے اور مٹانے کی تمام کوششوں کے بے کار ہونے کو استعارے کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف بہت ہی بڑا نور مثلاً سورج یا چاند ہو اور دوسری طرف اسے بجھانے کی سب سے کمزور کوشش منہ سے پھونکیں مارنا ہو تو ان پھونکوں کا انجام ہر ایک پر واضح ہے۔ اسی طرح ایک طرف اللہ کا نور، یعنی اسلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہر حال میں پورا کرنا طے کر چکا ہے، دوسری طرف ان یہود و نصاریٰ کی اسے روکنے اور مٹانے کی حقیر اور بے کار کوششیں ہیں، جو سورج کو نہیں بلکہ کائنات کے سب سے بڑے نور کو سب سے حقیر چیز منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس سے وہ نورِ اسلام کی تکمیل کو روک سکتے ہیں؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.