تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت49)وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَ لَا تَفْتِنِّيْ: فتنے کا معنی یہاں گناہ میں مبتلا ہونا کیا گیا ہے اور ہلاکت بھی۔ اس کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ آپ مجھے اتنی شدید گرمی میں اتنے طویل و پر مشقت سفر اور جنگ کا حکم دے کر گناہ میں نہ ڈالیں، کیونکہ اگر میں آپ کے حکم کے بعد نہ گیا تو گناہ گار ہوں گا اور گیا تو ہلاکت کا خطرہ ہے، ادھر گھر اکیلے رہ جائیں گے اور اہل و عیال ہلاک ہو جائیں گے، اس لیے آپ خود ہی مجھے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دے کر اس فتنے سے بچا لیں۔ یہ تفسیر الفاظ کے قریب ہے، جنگ خندق میں بھی منافقین کے بہانوں میں سے ایک بہانہ گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا تھا۔ دیکھیے سورۂ احزاب (۱۳) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک منافق جد بن قیس نے یہ بہانہ بنایا کہ یا رسول اللہ! رومی عورتیں بہت خوبصورت ہیں، اگر میں وہاں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا، اس لیے آپ مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ (ہاں، میں مال خرچ کرکے مدد کروں گا)۔ [ المعجم الکبیر: 275/2، ح: ۲۱۵۴۔ أبونعیم فی المعرفۃ ] اسے هداية المستنير والے نے ضعیف کہا ہے اور الاستيعاب في بيان الأسباب والوں نے حسن کہا ہے۔ (واللہ اعلم)

اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا: یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑ جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں کہ جہاد پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ فِي الْفِتْنَةِ پہلے لانے سے حصر کا معنی حاصل ہوتا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی فتنہ ہو گا اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونا خود ایک فتنہ ہے، اب تو حیلے بہانے تراش کر یہ نکل جائیں گے، مگر جہنم کے گھیرے سے کیسے نکل پائیں گے؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.