تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 94) فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ …: اس سورت کااصل موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت اور مخالفین کے شبہات کی تردید ہے۔ یہاں سورت کے آخر میں پھر اصل موضوع کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ مشرکین عرب چونکہ ان پڑھ اور آسمانی کتابوں کے علم سے بے بہرہ تھے، اس لیے ان کو توجہ دلائی کہ اگر تمھیں کوئی شک ہے، خود علم نہیں ہے تو ان علمائے یہود سے دریافت کر لو جو تورات وغیرہ کا آسمانی علم رکھتے ہیں۔ ان میں سے جو منصف مزاج اور اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ اقرار کریں گے کہ قرآن واقعی آسمانی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، کیونکہ ان کی کتابوں میں جگہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتیں موجود ہیں اور آپ کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض! یہ خطاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر مقصود مشرکین عرب کو توجہ دلانا ہے، ورنہ آپ کو اپنی رسالت پر شک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات ایک بات بطور فرض و تقدیر کی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ فی الواقع ایسا ہے، یعنی اگر فرض کریں آپ کو کوئی شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لیں، ان کی کتابوں میں آپ کا واضح ذکر خیر موجود ہے، پھر شک کیسا؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ جب عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟ تو وہ اپنے تفصیلی بیان میں یہ بھی کہیں گے: « اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ » [ المائدۃ: ۱۱۶ ] یعنی فرض کریں کہ میں نے یہ بات کہی تھی تو یا اللہ! تجھ سے تو اوجھل نہیں رہ سکتی۔ مطلب صاف ہے کہ میں نے یہ بات ہر گز نہیں کہی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ شک تھا نہ آپ کو کسی اہل کتاب سے پوچھنے کی ضرورت تھی۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہاں كُنْتَ فِيْ شَكٍّ میں ہر انسان کو براہ راست خطاب ہے، کیونکہ یہ کتاب ہر ایک کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.