تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

اس سورت میں توحید کی دعوت، انبیاء کی اس دعوت کے دوران میں عزیمت اور ان پر گزرنے والے حالات و واقعات، انھیں جھٹلانے والوں کا بدترین انجام اور ان پر آنے والے عذابوں کے تذکرے اور اہل ایمان کی نجات اور ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے۔ چونکہ اس میں انذار (ڈرانے)کا پہلو غالب ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا بہت اثر ہوا، چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَدْ شِبْتَ، قَالَ شَيَّبَتْنِيْ هُوْدٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠ وَ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ] [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورۃ الواقعۃ: ۳۲۹۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ: ۹۵۵ ] یا رسول اللہ! آپ بوڑھے ہو گئے۔ فرمایا: مجھے ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور تکویر نے بوڑھا کر دیا۔

(آیت 1)الٓرٰ: دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔

كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ: یہاں قرآن کریم کی چار صفات بیان ہوئی ہیں، پہلی یہ کہ یہ قرآن (پڑھا جانے والا مجموعہ) کتاب (لکھا ہوا مجموعہ) بھی ہے، دوسری یہ کہ اس کی آیات محکم یعنی خوب پختہ، مضبوط اور اٹل نازل کی گئی ہیں، جن میں کوئی عیب یا کمی نہیں اور نہ وہ (مجموعی اعتبار سے) منسوخ ہیں، نہ منسوخ ہوں گی اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی کتاب لائی جا سکتی ہے، خواہ ساری مخلوق جمع ہو جائے، ایسی محکم آیات والی کتاب صرف یہ ہے۔

ثُمَّ فُصِّلَتْ: تیسری یہ کہ اس کی آیات ایسی واضح ہیں اور کھول کر بیان کی گئی ہیں کہ کسی آیت کے مفہوم میں ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے، پھر ساری کتاب مختلف سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہے۔ ہر آیت جدا جدا ہے، اپنی جگہ مستقل، ایک بے حد خوبصورت ہار کی طرح جو رنگا رنگ مضامین توحید، آخرت، نبوت، قصص کے موتیوں سے پرویا ہوا ہے اور وہ نہایت مناسب فاصلے، ترتیب اور حسن سے اپنی اپنی جگہ جگمگا رہے ہیں، پھر نزول میں بھی آیات اور سورتیں ضرورت کے مطابق الگ الگ نازل کی گئی ہیں۔ فُصِّلَتْ میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں۔

مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ: چوتھی یہ کہ یہ کسی انسان، فرشتے، جن یا کسی بھی مخلوق کی تصنیف نہیں، بلکہ اس ذات پاک کا کلام ہے جو حکیم ہے۔ حکیم کا ایک معنی پختہ و محکم بنانے والا ہے، جس کی بنائی ہوئی ہر چیز نہایت محکم، پختہ اور مضبوط ہے، فرمایا: « صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ » [ النمل: ۸۸ ] اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یعنی پہاڑ اور ان کا قیامت کو بادلوں کی طرح چلنا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جب اس کی مخلوق کا یہ حال ہے تو اس کے کلام کے محکم ہونے کی کوئی حد ہو گی؟ حکیم کا دوسرا معنی حکمت، یعنی دانائی والا ہے، یعنی اس کی تمام آیات کمال حکمت اور دانائی سے پُر ہیں، خبیر یعنی ان کو اتارنے والا ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.