تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 3)وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ: پچھلی آیت میں اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں استغفار اور توبہ سے مراد غیر اللہ کی عبادت سے استغفار اور توبہ ہے، یعنی تم اللہ کے ساتھ جو بھی شرک اور اس کی نافرمانیاں کر چکے ہو ان کی معافی اور بخشش مانگو، مگر اس استغفار کا فائدہ تب ہے کہ ان گناہوں سے واپس پلٹ آؤ اور آئندہ کے لیے نہ کرنے کا خلوصِ دل سے عزم کرو، پھر اگر انسانی کمزوری سے کوئی گناہ ہو جائے تو پھر معافی مانگو اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے خلوص دل سے پھر توبہ کرو اور یہ سلسلہ ساری زندگی ہر لغزش پر، خواہ کتنی بار بھی ہو جائے جاری رکھو۔ نہ گناہ کے بعد معافی مانگنے میں دیر کرو اور نہ معافی مانگنے کے ساتھ توبہ میں۔ تب استغفار اور توبہ کا فائدہ ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۷، ۱۸)۔

يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى: اس میں استغفار اور توبہ کا کمال فائدہ بیان فرمایا ہے۔ یہ دنیا جسے اللہ تعالیٰ نے متاع غرور بتایا ہے، اسے اللہ تعالیٰ استغفار اور توبہ کرنے والے مومن کے لیے موت تک متاع حسن بنا دے گا۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے سرفراز ہو کر بھی متاع غرور کے بجائے متاع حسن سے فائدہ اٹھائے گا۔ وہ استغفار اور توبہ کے ساتھ اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں بسر کرے گا، تو اس کی نفسانی لذتیں بھی اس کے لیے ثواب بن جائیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا: [ وَلَسْتَ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِيْ بِهَا وَجْهَ اللّٰهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا وَ فِيْ رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ: فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّي اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِيْ فِيْ امْرَأَتِكَ ] [ مسلم، الوصیۃ، باب الوصیۃ بالثلث: ۱۶۲۸۔ بخاری: ۲۷۴۲ ] تم جو بھی خرچ کرو گے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہو گے، اس پر تمھیں اجر دیا جائے گا (بخاری کے الفاظ ہیں کہ وہی صدقہ بن جائے گا) یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔ ایسے مومن کو دنیا میں حیات طیبہ عطا ہوتی ہے (خواہ بظاہر وہ مصیبت میں گرفتار ہو) اور آخرت کا بہترین اجر عطا ہو گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۹۷) عمل صالح اور استغفار کی بے شمار برکات اور فوائد ہیں، چند فوائد کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۵۲، ۶۱، ۹۰)۔

وَ يُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ: فَضْلٍ کا معنی زائد ہے، یعنی جو اطاعت اور نیک اعمال میں جتنا زیادہ ہو گا اسے اللہ تعالیٰ دنیا یا آخرت یا دونوں میں زیادہ اجر دے گا۔ اللہ کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، اس کا قاعدہ ہے کہ جو کوئی برائی کرتا ہے اس کے لیے ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کرتا ہے اس کے لیے کم از کم دس(۱۰)نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی حساب نہیں، فرمایا: « وَ اللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ » [ النور: ۳۸ ] اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صدقہ عموماً اپنی ضرورت سے زائد چیز ہی کا کیا جاتا ہے، تو ہر شخص جو اپنی ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دے، تو اللہ تعالیٰ اسے ہر گز کمی نہیں ہونے دے گا، بلکہ اس کی زائد چیز ضرور اسے دے گا، پھر جو اپنی ضرورت کے باوجود صدقہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس پر کس قدر فضل فرمائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِّنْ مَّالٍ ] [ مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع: ۲۵۸۸، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ] کوئی صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا۔

وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ: بہت بڑے دن کے عذاب سے، یعنی میں تم پر دنیا کے عذاب کے علاوہ آخرت کے دن کے عذاب سے بھی ڈرتا ہوں، جو بہت بڑا، یعنی پچاس ہزار سال کا دن ہے اور جس کے بعد پھر کفار کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.