تفسير ابن كثير



مسئلہ ٭٭

اگر کسی نے دوسرے کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے لے لیا گیا، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں۔ مالک، شافعی، احمد رحمہ اللہ علیہم اور جمہوری صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس پر دیت واجب ہے، اسی کے مال میں سے۔‏‏‏‏ بعض اور بزرگ فرماتے ہیں اس کے ماں باپ کی طرف کے رشتہ داروں کے مال پر وہ دیت واجب ہے۔‏‏‏‏ بعض اور حضرات کہتے ہیں بقدر اس کے بدلے کے تو ساقط ہے باقی اسی کے مال میں سے واجب ہے۔‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” جو شخص قصاص سے درگزر کرے اور بطور صدقے کے اپنے بدلے کو معاف کر دے تو زخمی کرنے والے کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے، اسے ثواب ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے “۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔‏‏‏‏ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ زخمی کیلئے کفارہ ہے یعنی اس کے گناہ اسی زخم کی مقدار سے اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے۔‏‏‏‏

ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے کہ اگر چوتھائی دیت کے برابر کی چیز ہے اور اس نے درگزر کر لیا تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ثلث ہے تو تہائی گناہ، آدھی ہے تو آدھے گناہ اور پوری ہے تو پورے گناہ ۔ [الدر المنشور للسیوطی:510/2:ضعیف] ‏‏‏‏


ایک قریشی نے ایک انصاری کو زور سے دھکا دے دیا جس سے اس کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہوگیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اچھا جا تجھے اختیار ہے۔‏‏‏‏ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ وہیں تھے فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاء پہنچائی جائے اور وہ صبر کر لے، بدلہ نہ لے تو اللہ اس کے درجے بڑھاتا ہے اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے ۔ اس انصاری نے یہ سن کر کہا، کیا سچ مچ آپ رضی اللہ عنہ نے خود ہی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے یاد کیا ہے، اس نے کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے اپنے مجرم کو معاف کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے انعام دیا۔‏‏‏‏۔ [سنن ترمذي:1393،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ترمذی میں بھی یہ روایت ہے لیکن امام ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث غریب ہےابو سفر راوی کا سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت نہیں۔ [مسند احمد:448/6:صحیح لغیره مرفوعا وهذا اسناد ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں ہوا تھا، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص خون یا اس سے کم کو معاف کر دے، وہ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا کفارہ ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:368/10:ضعیف و منقطع] ‏‏‏‏

مسند میں ہے کہ جس کے جسم میں کوئی زخم لگے اور وہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے اتنے ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ [مسند احمد:5/316:صحیح] ‏‏‏‏

مسند میں یہ بھی حدیث ہے اللہ کے حکم کے مطابق حکم نہ کرنے والے ظالم ہیں ۔ پہلے گزر چکا ہے کہ کفر کفر سے کم ہے، ظلم میں بھی تفاوت ہے اور فسق بھی درجے ہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.