تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 38) وَ يَصْنَعُ الْفُلْكَ: ماضی کے ایک واقعہ کو مضارع کے صیغے سے بیان فرمایا۔ اس سے ان کا مسلسل کئی دنوں تک اس بڑی کشتی کو بناتے رہنا ثابت ہوتا ہے، جیساکہكَانَ کا صیغہ جو ماضی ہے، مضارع پر آ جائے تو اس سے مراد ماضی میں استمرار ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے اور وہ کشتی بناتا رہا۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مضارع کا لفظ حکایت حال، یعنی وہ نقشہ سامنے لانے کے لیے استعمال فرمایا، گویا ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوح علیہ السلام کشتی بنا رہے ہیں اور قوم کے لوگ انھیں مذاق کر رہے ہیں، یہ معنی بھی جید ہے۔

وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ …: وہ اس پر مذاق کرتے کہ بڑے میاں ترکھان کب سے بن گئے اور اب اس حد تک دماغ میں خلل آ گیا کہ خشک زمین پر پانی میں غرق ہونے سے بچاؤ کا بندوبست کر رہے ہیں۔ نوح علیہ السلام اس پر ہنستے کہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ ایمان اور اطاعت کے ذریعے سے عذاب الٰہی سے بچاؤ حاصل کریں، الٹا کفر اور نافرمانی پر اصرار کرکے اور اللہ کے نشانات کا مذاق اڑا کر عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوح علیہ السلام نے فرمایا ہو کہ جیسے تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو، وہ وقت بالکل قریب ہے جب تم غوطے کھا رہے ہو گے اور ہم تمھارا مذاق اڑائیں گے، جیسا کہ تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ (نوح علیہ السلام) ہنستے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں۔ (موضح)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.