تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 52)وَ يٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ …: السَّمَآءَ آسمان کے علاوہ ہر بلند چیز کو بھی سَمَاءٌ کہہ لیتے ہیں، کیونکہ سَمَا يَسْمُوْ کا معنی بلند ہونا ہے، یہاں السَّمَآءَ سے مراد بادل یا بارش ہے۔ مِدْرَارًا یہ دَرٌّ سے مبالغے کا صیغہ ہے، جس کا معنی دودھ کا بہنا اور زیادہ ہونا ہے، پھر بہت برسنے والی بارش کے لیے بطور استعارہ استعمال ہونے لگا۔ دَرَّتِ السَّمَاءُ بِالْمَطَرِ دَرًّا، وَ تَدِرُّ دَرًّا جب آسمان سے بارش بہت برسے۔ ان آیات سے اور دوسرے مقامات مثلاً الاحقاف(۲۴) سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فخر و غرور اور اپنے رسول ہود علیہ السلام کو جھٹلانے کی وجہ سے کافی عرصہ تک ان سے بارش روک لی گئی، جس کے نتیجے میں قحط کی وجہ سے ہر طرف دھول اڑنے لگی اور باوجود زبردست جسمانی ڈیل ڈول اور قوت کے سب لوگوں میں کمزوری نمایاں ہونے لگی تو ہود علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ سب سے پہلے تو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو شرک اور اس کی نافرمانی کی ہے، اس کی معافی مانگو۔ بہت سے مفسرین نے یہاں اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ سے شرک چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لانا مراد لیا ہے۔ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یعنی آئندہ اس کی ہر نافرمانی ترک کرنے اور ہر حکم بجا لانے کا پختہ عزم کرو، تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم پر ایسا بادل بھیجے گا جو خوب برسنے والا ہو گا اور تمھاری قوت کی کمی دور کرکے پہلے سے بھی زیادہ قوت عطا فرمائے گا۔ معلوم ہوا کہ استغفار اور توبہ سے قحط دور ہوتا ہے اور جسمانی، ذہنی اور مالی ہر قسم کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۳) اور سورۂ نوح (۱۰ تا ۱۲)۔

وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِيْنَ: یعنی میری اطاعت سے منہ نہ موڑو، ورنہ تم مجرم قرار پاؤ گے۔

➌ یہاں تک ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور اس مختصر سی تقریر میں تین دفعہ انھیں اے میری قوم! کہہ کر پکارا، تاکہ شاید قرابت کے واسطے ہی سے ان کے دلوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔ کیونکہ ہود علیہ السلام اسی قبیلے کے فرد ہو کر انھی کی بدخواہی نہیں کر سکتے تھے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.