تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 59)وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰيٰتِ اِلَّاۤ اَنْ …: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر، جو آخری امت ہے، اپنے خاص فضل اور رحمت کا ذکر فرمایا ہے۔ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی چیزیں نشانی کے طور پر دکھانے کا مطالبہ کیا (دیکھیے بنی اسرائیل: ۹۰ تا ۹۳) مگر اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سنت رہی ہے کہ نشانی دکھانے کے بعد اگر کوئی قوم ایمان نہ لائے تو اسے عذاب کے ساتھ نیست و نابود کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ قوم ثمود کے مطالبے پر بطور نشانی اونٹنی دی گئی، انھوں نے اس پر ظلم کیا تو صَيْحَةٌ (چیخ) اور رَجْفَةٌ (زلزلے) سے تمام کفار ہلاک کر دیے گئے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی نشانی نہیں دی، تاکہ اس امت کے لیے ایمان لانے کی مہلت باقی رہے۔ اگر موجودہ کفار ایمان نہ لائیں تو ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لا سکیں۔ ہماری امت کو عطا ہونے والی نشانی میں دو وصف ہیں، جو پہلے کسی نبی کی نشانی میں نہیں تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت (۵۰، ۵۱)۔

وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا: یعنی عذاب سے ڈرانے کے لیے، کیونکہ اگر وہ نہیں ڈریں گے تو ان پر عذاب نازل ہو جائے گا۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.