تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 8)وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَيْهَا …: صَعِيْدًا مٹی، کیونکہ وہ سمندر سے اوپر اٹھی ہوئی ہے۔ صَعِدَ يَصْعَدُ چڑھنا۔ جُرُزًا چٹیل زمین، جس میں کوئی سبزہ نہ ہو۔ جَرَزَتِ الْأَرْضُ قحط یا ٹڈی دل کی وجہ سے زمین پر کوئی اگی ہوئی چیز نہ رہ گئی۔ سورۂ سجدہ میں فرمایا: «اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَآءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْهُ اَنْعَامُهُمْ وَ اَنْفُسُهُمْ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ» ‏‏‏‏ [ السجدۃ: ۲۷ ] اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم پانی کو چٹیل زمین کی طرف ہانک کر لے جاتے ہیں، پھر اس کے ذریعے کھیتی نکالتے ہیں جس میں سے ان کے چوپائے کھاتے ہیں اور وہ خود بھی، تو کیا وہ نہیں دیکھتے؟ ان دونوں آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ کفار جن چیزوں پر اترا رہے ہیں وہ سب چند دن کے لیے زمین کی زینت ہیں، پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ نہ اس پر کوئی مکان رہے گا نہ باغ، نہ سبزہ، نہ جانور، نہ آدمی، یعنی یہ ساری چہل پہل ختم ہو جائے گی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.