تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 24،23) وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ …: یہاں شان نزول میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحابِ کہف، روح اور ذو القرنین سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: میں تمھیں کل جواب دوں گا اور ان شاء اللہ نہ کہا، تو پندرہ (۱۵) دن وحی رکی رہی، پھر یہ آیت اتری: «وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّيْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا (23) اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ» ‏‏‏‏رازی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قاضی نے اسے کئی وجہوں سے بے کار قرار دیا ہے۔ قاسمی نے فرمایا کہ ان کی بات حق ہے، کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ روایت ایک مجہول شیخ سے بیان کی ہے، جیسا کہ ابن کثیر (اور طبری) میں اس کی سندیں موجود ہیں۔ (محاسن التاویل)

➋ اس آیت کا ایک معنی تو مشہور ہے کہ کسی کام کے متعلق یہ مت کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں، مگر اس کے ساتھ ان شاء اللہ ضرور کہو، کیونکہ اللہ نے چاہا تو کام ہو گا، ورنہ نہیں۔ اس کی مثال سلیمان علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا: [ لَأَطُوْفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلٰي مِائَةِ امْرَأَةٍ أَوْ تِسْعٍ وَّتِسْعِيْنَ، كُلُّهُنَّ يَأْتِيْ بِفَارِسٍ يُجَاهِدُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ قُلْ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، فَلَمْ يَقُلْ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْهُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ جَاءَتْ بِشِقِّ رَجُلٍ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَوْ قَالَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ، لَجَاهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فُرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ ] [ بخاري، الجہاد والسیر، باب من طلب الولد للجہاد: ۲۸۱۹ ] آج رات میں اپنی سو (۱۰۰) یا فرمایا ننانوے (۹۹) عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ہر عورت ایک بیٹا جنے گی، جو جہاد فی سبیل اللہ کا شہ سوار ہو گا۔ ان کے ایک ساتھی نے کہا: ان شاء اللہ کہیے۔ مگر سلیمان علیہ السلام نے (مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے) ان شاء اللہ نہ کہا، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو حمل ہوا اور وہ بھی ادھورا بیٹا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو سب عورتوں کے بیٹے ہوتے جو شہ سوار ہوتے اور سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔

دوسرا معنی یہ ہے کہ اے نبی! کسی کام کے بارے میں (اپنی مرضی سے) یہ مت کہیے کہ کل میں یہ کام کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے، یعنی اللہ چاہے گا کہ آپ وہ کام کریں تو وہ آپ کو اجازت دے گا، پھر آپ اس کے اذن سے یہ کہہ سکتے ہیں۔ (قاسمی) یہ معنی اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ الفاظ کے زیادہ قریب ہے اور سورۂ نجم کی آیات (۳، ۴): «وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى» ‏‏‏‏میں بھی یہی مفہوم ہے۔

وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ: یعنی جب بھول جائیں تو یاد آنے پر ان شاء اللہ کہہ لیں۔ یاد رہے کہ قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ لے تو قسم پوری نہ کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قسم سے متصل ان شاء اللہ نہ کہے تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا، مگر یہ آیت دلیل ہے کہ اگر اس کا ارادہ ان شاء اللہ کہنے کا تھا مگر بھول کر نہیں کہہ سکا اور یاد آتے ہی اس نے کہہ لیا تو اس کا اعتبار ہو گا۔ مستدرک حاکم (۴؍۳۰۳، ح: ۷۸۳۳) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مروی ہے کہ جب آد می کسی بات پر قسم کھا لے تو وہ ایک سال تک ان شاء اللہ کہہ سکتا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے مدارج السالکین میں فرمایا: یہ نسیان کی صورت میں ہے۔ (محاسن التاویل ملخصاً)

وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ …: اور کہہ دیجیے کہ مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے اصحابِ کہف کی خبر سے بھی قریب تر لوگوں کی ہدایت کا باعث بننے والی خبریں بتائے گا جن سے میری رسالت ثابت ہو گی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی بہت سی خبریں آپ کو بتائیں جن کی کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.