تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 54)وَ اذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ …: یہ پانچواں قصہ اسماعیل علیہ السلام کا ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور تمام حجاز کے باپ۔ (ابن کثیر) گو تمام انبیاء وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر اسماعیل علیہ السلام میں یہ صفت خاص طور پر پائی جاتی تھی۔ سب سے پہلے تو ان میں یہ وصف تھا کہ وہ وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ لیا کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے والد سے وعدہ کرتے وقت کہا تھا: « سَتَجِدُنِيْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ » [ الصافات: ۱۰۲ ] اگر اللہ نے چاہا تو تُو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ پھر یہ وعدے کی سچائی ہی تھی کہ انھوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ ذبح ہوتے وقت صبر کروں گا، پھر بے دھڑک چھری کے نیچے لیٹ گئے اور اف تک نہ کیا۔ اس سے بڑھ کر وعدہ وفائی کیا ہو گی؟ وعدہ پورا کرنا ایمان ہے اور وعدہ خلافی نفاق۔ ابوسفیان نے ہرقل کے پاس اقرار کیا تھا: [ يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ ] [ بخاري، الجھاد والیسر، باب دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلی الإسلام…: ۲۹۴۱ ] کہ نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں نماز، سچ، پاک دامنی، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو منافق کی تین نشانیوں میں سے ایک قرار دیا۔ [ بخاری، الإیمان، باب علامات المنافق: ۳۳، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]

➋ یہاں طبری اور ابن کثیر نے سہل بن عقیل سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام نے ایک آدمی سے ا س کے آنے تک ایک جگہ میں رہنے کا وعدہ کیا، وہ بھول گیا تو ایک دن رات اس کے آنے تک وہیں ٹھہرے رہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ » اور سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ایک سال وہیں ٹھہرے رہے۔ مگر یہ دونوں روایات بعض علماء کے اقوال ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز بیان نہیں فرمائیں۔ ظاہر ہے ان دونوں بزرگوں نے یہ روایات بنی اسرائیل سے لی ہیں اور ہم اہل کتاب کی کسی بات کو سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔

➌ سنن ابی داؤد وغیرہ میں اسی طرح کا واقعہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی مروی ہے کہ نبوت سے پہلے ایک آدمی کے آنے تک ٹھہرنے کے وعدے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن رات وہیں ٹھہرے رہے، مگر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا: اللہ تعالیٰ نے اسحاق اور یعقوب علیھما السلام کو صرف نبی (مریم: ۴۹) اور اسماعیل علیہ السلام کو رَسُوْلًا نَّبِيًّا فرمایا، اس سے ان کے بلند مرتبے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام بنو جرہم کی طرف رسول تھے، جن کے وہ داماد بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفی مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيْمَ إِسْمَاعِيْلَ ] [ ترمذي، المناقب عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ما جاء في فضل النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۳۶۰۵ ] اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کو منتخب فرمایا۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.