تفسير ابن كثير



انسانوں میں سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم احسان ٭٭

کفار کی ضد اور سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ یہ تو حق کے دشمن ہیں۔ بالفرض یہ کتاب اللہ کو آسمان سے اترتی ہوئی اپنی آنکھوں دیکھ لیتے اور اپنے ہاتھ لگا کر اسے اچھی طرح معلوم کر لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے، محسوسات کا انکار بھی ان سے بعید نہیں۔

جیسے اور جگہ ہے آیت «وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ» [15۔الحجر:15،14] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر ہم آسمان کا دروازہ کھول دیتے اور یہ خود اوپر چڑھ جاتے، جب یہ بھی یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے “۔

اور ایک آیت میں ہے «وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ» [52۔الطور:44] ‏‏‏‏ غرض کہ جن باتوں کے ماننے کے عادی نہیں انہیں ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہونے کا۔

یہ کہتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی؟ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ ” ان کی اس بے ایمانی پر اگر فرشتے آ جاتے تو پھر تو کام ہی ختم کر دیا جاتا، چنانچہ اور آیت میں ہے «مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰىِٕكَةَ اِلَّا بالْحَقِّ وَمَا كَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ» [15۔الحجر:8] ‏‏‏‏ یعنی ” فرشتوں کو ہم حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں۔ اگر یہ آ جائیں تو پھر مہلت و تاخیر ناممکن ہے “ اور جگہ ہے آیت «يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلٰىِٕكَةَ لَا بُشْرٰى يَوْمَىِٕذٍ لِّلْمُجْرِمِيْنَ وَيَقُوْلُوْنَ حِجْـرًا مَّحْجُوْرًا» [25۔الفرقان:22] ‏‏‏‏ ” جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن گہنگار کو کوئی بشارت نہیں ہوگی “۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.