تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 38) اِذْ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّكَ مَا يُوْحٰۤى: جب کسی چیز کی عظمت بیان کرنا مقصود ہو تو یہ انداز اختیار کیا جاتا ہے جو وحی کی جاتی تھی یعنی اس کی عظمت محدود الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی، جیسا کہ « فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ » [ طٰہٰ: ۷۸ ] اور « فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى » [ النجم: ۱۰ ] میں ہے۔

➋ یہاں موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو بتانے اور مطمئن کرنے کے لیے اَوْحَيْنَاۤ (ہم نے وحی کی) اور يُوْحٰۤى (جو وحی کی جاتی تھی)کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وحی کے لفظی معنی اشارۂ سریعہ یا دل میں کوئی بات ڈال دینے کے ہیں۔ اصطلاح میں جب یہ لفظ کسی نبی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی فرشتے کے ذریعے سے پیغام بھیجنا ہوتے ہیں۔ قرآن میں دونوں معنوں کے اعتبار سے وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے، چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف جو وحی بھیجی گئی وہ بھی لفظی معنی کے اعتبار سے تھی، یعنی خواب میں یا کسی خفیہ طریقے سے ان کے دل میں یہ بات ڈال دی گئی جس سے ان کو یقین و اطمینان حاصل ہو گیا، کیونکہ اس بات پر تقریباً علماء کا اتفاق ہے کہ اللہ کے جتنے نبی ہوئے ہیں مردوں میں سے ہوئے ہیں، عورتوں میں سے کسی عورت کو نبی نہیں بنایا گیا۔ دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۹) اور انبیاء (۷) لہٰذا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نبی نہیں تھیں کہ ان کے لیے وحی کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو کسی نبی کے لیے ہوتے ہیں۔ (کبیر)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.