تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 45) قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ: یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا کام تو وحی کے مطابق تمھیں اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، عذاب لانا نہیں۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور فوراً عذاب لانا اس کی کونی اور شرعی حکمتوں کے خلاف ہے، کیونکہ اس سے آزمائش کا مقصد فوت ہوتا ہے۔

وَ لَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ: بہروں سے مراد کفار ہیں جنھیں حق سنائی ہی نہیں دیتا۔ الف لام عہد کا ہے، اس لیے ترجمہ یہ بہرے کیا گیا ہے۔ آیت کے شروع میں کفار کو مخاطب فرمایا کہ میں تو تمھیں وحی کے ساتھ ڈراتا ہوں پھر فرمایا یہ بہرے پکار نہیں سنتے، بعد میں انھیں غائب کے صیغے سے ذکر فرمایا کہ یہ لوگ مخاطب کرنے کے اہل ہی نہیں، یہ التفات ہے۔

اِذَا مَا يُنْذَرُوْنَ: جب ڈرائے جاتے ہیں کے الفاظ سے ان کے بہرے پن کی شدت بیان کرنا مقصود ہے، کیونکہ بہرہ تو کوئی بھی بات نہیں سنتا، خواہ ڈرانے کی ہو یا خوش خبری کی، مگر عام دستور ہے کہ ڈرانے کے وقت زیادہ سے زیادہ اونچی آواز کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔ تو جو بہرہ اتنی بلند پکار نہ سنے وہ کوئی اور آواز کیا سنے گا؟



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.