تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 11) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ …: حَرْفٍ کا معنی کنارا ہے، یعنی وہ دین کے دائرے کے وسط میں داخل نہیں ہوتا، بلکہ کنارے ہی پر رہتا ہے، یا اس کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہوتا، صرف زبان اسلام کا اقرار کرتی ہے، جیسے کوئی شخص کسی لشکر کے کنارے پر رہے، اگر فتح نظر آ رہی ہو تو جا ملے، ورنہ فرار اختیار کرے۔ یہ آیت ان اعراب (بادیہ نشین) لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے۔ پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہو جاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض مؤلفۃ القلوب کی بھی یہی حالت تھی۔ (کبیر) اور دیکھیے سورۂ بقرہ(۱۷ تا ۲۰)۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: [ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْمَدِيْنَةَ، فَيُسْلِمُ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَيْلُهُ قَالَ هٰذَا دِيْنٌ صَالِحٌ وَ إِنْ لَّمْ تَلِدِ امْرَأَتُهُ وَ لَمْ تُنْتَجْ خَيْلُهُ قَالَ هٰذَا دِيْنُ سَوْءٍ ] [ بخاري، التفسیر، باب و من الناس من یعبد اللہ علی حرف : ۴۷۴۲ ] آدمی مدینے آتا، پھر اگر اس کی بیوی لڑکے کو جنم دیتی اور اس کی گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا، یہ اچھا دین ہے اور اگر بیوی کے ہاں بچہ نہ ہوتا اور نہ گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا یہ دین برا ہے۔

انْقَلَبَ عَلٰى وَجْهِهٖ: یعنی مرتد ہو گیا اور پھر کفر و شرک کی طرف پلٹ گیا۔

ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، یعنی دنیا کا فائدہ اور بھلائی دیکھے تو بندگی پر قائم رہے اور اگر آزمائش آ جائے اور کوئی تکلیف پہنچے تو بندگی چھوڑ دے۔ ادھر (تکلیف اور مصیبت سے) دنیا گئی ادھر (بندگی چھوڑ کر مرتد ہونے سے) دین گیا۔ کنارے پر کھڑا ہے، یعنی دل ابھی نہ اس طرف ہے اور نہ اس طرف، جیسے کوئی مکان کے کنارے کھڑا ہے، جب چاہے نکل جائے۔ (موضح)



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.