تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 3) وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ:لغو ہر وہ بات یا کام جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اس میں شرک اور ہر گناہ، بلکہ ہر بے فائدہ اور بے مقصد قول و فعل آ جاتا ہے۔ یعنی کوئی لغو بات یا کام خود کرنا تو دور کی بات ہے، وہ کوئی لغو کام ہوتا ہوا دیکھتے یا سنتے بھی نہیں، بلکہ ان کی عادت ہی لغو سے منہ موڑے رکھنا ہے۔ يُعْرِضُوْنَ کے بجائے مُعْرِضُوْنَ (اسم فاعل) کا مطلب ہے کہ لغو سے اعراض ان کی عادت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيْهِ ] [ ترمذي، الزھد، باب حدیث من حسن إسلام المرء …: ۲۳۱۷،عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ ] آدمی کے اسلام کے حسن میں سے اس کا ان چیزوں کو چھوڑ دینا ہے جو اس کے مقصد کی نہیں ہیں۔ عباد الرحمان کی صفت بیان فرمائی: «وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا» ‏‏‏‏ [ الفرقان: ۷۲ ] اور جب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔ جنت کی ایک خوبی یہ ہو گی: «‏‏‏‏لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِيْمًا» ‏‏‏‏ [ الواقعۃ: ۲۵ ] وہ اس میں نہ بے ہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.