تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 113) قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ …: وہ جواب میں کہیں گے کہ ہم وہاں ایک دن یا اس کا کچھ حصہ رہے ہیں۔ گویا وہ عذاب کی مصیبت میں ایسے پھنسے ہوں گے کہ انھیں اچھی طرح وہ عرصہ بھی یاد نہیں رہے گا جو انھوں نے دنیا میں گزارا، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں یہ کہہ کر کہ ہم نے وہاں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہے، یہ کہیں گے کہ ہمیں تو وہ مدت اچھی طرح یاد نہیں، اس لیے آپ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیں، جنھوں نے ہماری زندگی کے ایک ایک سانس کے عمل کو شمار کر رکھا ہے۔ مراد فرشتے ہیں۔

➋ انھیں دنیا کی زندگی اتنی مختصر کیوں دکھائی دے گی، اس لیے کہ گزرا ہوا وقت ایسے ہی دکھائی دیتا ہے اور اس لیے کہ جو ختم ہو جائے وہ باقی رہنے والے کے مقابلے میں کالعدم ہوتا ہے اور اس لیے کہ جہنم کے ایک غوطے کے بعد ہی انھیں یہ محسوس ہو گا کہ انھوں نے کبھی راحت و آرام دیکھا ہی نہیں۔ [ دیکھیے مسلم: ۲۸۰۷ ]



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.