تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 2)اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا …: سورۂ نساء کی آیات (۱۵، ۱۶) میں اللہ تعالیٰ نے زنا کرنے والی عورتوں کے متعلق چار مردوں کی گواہی کے بعد انھیں گھروں میں بند رکھنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ انھیں موت اٹھا لے جائے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل پیدا فرما دے۔ اسی طرح زنا کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو توبہ کرنے تک ایذا و تکلیف دینے کا حکم دیا اور یہاں سورۂ نور کی زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے کنوارے مرد اور کنواری عورت کی سزا بیان فرمائی۔ جیسا کہ عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ خُذُوْا عَنِّيْ، خُذُوْا عَنِّيْ، قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلاً، الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَ نَفْيُ سَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ ] [ مسلم، الحدود، باب حد الزنٰی: ۱۶۹۰ ] مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، مجھ سے (دین کے احکام) لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے۔ کنوارا، کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ اس آیت سے بالاتفاق سورۂ نساء کی آیت کا حکم منسوخ ہو گیا۔

اَلزَّانِيَةُ وَ الزَّانِيْ: یہ مبتدا ہے، اس کی خبر فَاجْلِدُوْا ہے۔ اس پر فاء اس لیے آئی ہے کہ مبتدا میں شرط کا معنی پایا جاتا ہے، کیونکہ الف لام، أَلَّذِيْ کے معنی میں ہے، یعنی جو زنا کرنے والی عورت اور جو زنا کرنے والا مرد ہے۔ اس آیت میں مسلم حکام کو حکم ہے کہ جو عورت یا جو مرد بھی زنا کا ارتکاب کرے، خواہ وہ کسی دین یا ملت سے تعلق رکھتا ہو، اگر ان کا مقدمہ تمھارے پاس لایا جائے، جب وہ شادی شدہ نہ ہوں تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ شادی شدہ زانیہ اور زانی کے لیے رجم کا حکم ہے، جیسا کہ گزشتہ فائدہ میں مذکور حدیث میں آیا ہے، مزید تفصیل آگے آئے گی۔

➌ غیر مسلم ذمی اگر زنا کا ارتکاب کریں اور مسلم حکام کے پاس مقدمہ لایا جائے تو ان کا فیصلہ بھی کتاب و سنت کے مطابق کیا جائے گا، جیسا کہ سورۂ مائدہ (۴۸، ۴۹) میں مذکور ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے آپ سے ذکر کیا کہ ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا تَجِدُوْنَ فِي التَّوْرَاةِ فِيْ شَأْنِ الرَّجْمِ؟ ] تم تورات میں رجم کے متعلق کیا پاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم انھیں ذلیل کرتے ہیں اور انھیں کوڑے مارے جاتے ہیں۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے جھوٹ کہا، تورات میں رجم یقینا موجود ہے۔ چنانچہ وہ تورات لائے اور اسے کھولا، تو ان میں سے ایک شخص نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور جو اس سے پہلے اور اس کے بعد تھا اسے پڑھ دیا۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: ہاتھ اٹھا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس میں رجم کی آیت موجود تھی، توکہنے لگے: اے محمد! اس نے سچ کہا ہے، اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور دونوں کو سنگسار کر دیا گیا۔ [ بخاري، الحدود، باب أحکام أہل الذمۃ و إحصانہم إذا زنوا و رفعوا إلی الإمام: ۶۸۴۱ ]

امام بخاری رحمہ اللہ کے باب کے عنوان قائم کرنے سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل ذمہ اگر مقدمہ مسلمانوں کے پاس لائیں تو ان کے لیے بھی زنا کی سزا وہی ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں پر بھی رجم کا حکم نافذ فرمایا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری ملاحظہ فرمائیں۔ جن روایات میں اس حد کے نفاذ کے لیے اسلام کی شرط آئی ہے، ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں ذمی غیر مسلموں کو بے شک اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہے، مگر انھیں بے حیائی اور بدکاری پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اَلزَّانِيَةُ کو الزَّانِيْ سے پہلے لانے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عموماً زنا کی ترغیب عورتوں کی طرف سے ہوتی ہے، اگر ان کی طرف سے کوئی اشارہ یا مسکراہٹ یا بے حجابی یا کلام میں دلکشی نہ ہو تو مرد کو اقدام کی جرأت کم ہی ہوتی ہے۔ اسامہ ابن زید رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ] [ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ: ۵۰۹۶ ] میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اس کے علاوہ زنا کی قباحت اور اس کی عار عورتوں کے لیے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ بکارت اور حمل کے مسائل کا سامنا انھی کو ہوتا ہے۔ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا اس لیے فرمایا کہ زنا کی ترغیب عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے، سزا دونوں کو ایک جیسی ملے گی۔

فَاجْلِدُوْا: جِلْدٌ کا معنی چمڑا ہے۔ اس لفظ سے فقہاء نے دو مسائل اخذ کیے ہیں، ایک یہ کہ مارنے کے لیے کوڑا چمڑے کا ہونا چاہیے، جو درمیانہ ہو، نہ بہت سخت نہ بالکل نرم۔ دوسرا یہ کہ ضرب یعنی مار کا اثر جلد تک رہنا چاہیے، ایسی ضرب نہ ہو جس سے گوشت پھٹ جائے، اور یہ کوڑے چہرے اور نازک حصوں کو چھوڑ کر جسم کے الگ الگ حصوں پر مارے جائیں نہ کہ ایک ہی جگہ، اور پوری طاقت سے ہاتھ بلند کرکے نہیں بلکہ ہاتھ کندھے سے بلند کیے بغیر درمیانی ضرب لگائی جائے۔ زمخشری نے فرمایا: اَلْجِلْدُ کا معنی جلد پر ضرب ہے، چنانچہجَلَدَهُ (اس نے اس کی جلد پر مارا) ایسے ہی ہے جیسے ظَهَرَهُ (اس نے اس کی پشت پر مارا)، بَطَنَهُ (اس نے اس کے پیٹ پر مارا) اور رَأَسَهُ (اس نے اس کے سر پر مارا)۔ آج کل حکومتیں جلادوں کے ہاتھوں جس قسم کے کوڑے مرواتی ہیں، جن کے لیے جلادوں کو باقاعدہ مشق کروائی جاتی ہے کہ وہ ایک ہی جگہ پڑیں، پھر ملزم کو ٹکٹکی پر باندھ کر اس کے چوتڑوں پر اس طرح کوڑے برسائے جاتے ہیں کہ جلاد دور سے دوڑتا ہوا آ کر پوری قوت سے کوڑا مارتا ہے، ایک ہی جگہ چند کوڑے لگنے کے بعد گوشت کے ٹکڑے اڑنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات ہڈیاں ننگی ہو جاتی ہیں اور وہ ساری عمر کے لیے روگی بن جاتا ہے۔ اسلام میں ایسے کوڑے مارنے کی وحشیانہ سزا کسی بھی جرم میں مقرر نہیں کی گئی، بلکہ اگر زنا کا ارتکاب ایسے کنوارے شخص سے ہو جو سو کوڑے برداشت نہ کر سکتا ہو تو اس کے لیے رعایت بھی موجود ہے۔ سعید بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلے میں ایک ناقص اعضا والا کمزور آدمی تھا، اسے دیکھا گیا کہ محلے کی ایک لونڈی سے بدکاری کر رہا تھا۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے فرمایا: اسے سو کوڑے مارو۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! وہ اس سے کمزور ہے، اگر ہم نے اسے سو کوڑے مارے تو وہ مر جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فَخُذُوْا لَهُ عِثْكَالًا، فِيْهِ مِائَةُ شِمْرَاخٍ، فَاضْرِبُوْهُ ضَرْبَةً وَاحِدَةً ] [ ابن ماجہ، الحدود، باب الکبیر والمریض یجب علیہ الحد: ۲۵۷۴ ] پھر کھجور کا ایک خوشہ لو، جس میں سو ٹہنیاں ہوں اور وہ اسے ایک ہی بار مار دو۔

وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ …: کیونکہ بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرے پر ظلم ہے۔ پہلی امتوں پر حدود الٰہی میں نرمی ہی سے تباہی آئی۔حدود اللہ کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ان پر وبائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِيْنَ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيْتُمْ بِهِنَّ، وَ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ أَنْ تُدْرِكُوْهُنَّ: لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ، حَتّٰی يُعْلِنُوْا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيْهِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِيْ لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِيْ أَسْلَافِهِمُ الَّذِيْنَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ، إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِيْنَ وَ شِدَّةِ الْمَؤُوْنَةِ وَ جَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوْا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَ لَوْ لَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوْا وَلَمْ يَنْقُضُوْا عَهْدَ اللّٰهِ وَ عَهْدَ رَسُوْلِهِ، إِلَّا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ أَيْدِيْهِمْ وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَ يَتَخَيَّرُوْا مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ، إِلَّا جَعَلَ اللّٰهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ ] [ ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات: ۴۰۱۹۔ مستدرک حاکم: 540/4، ح: ۸۶۲۳، و قال صحیح علی شرط مسلم۔ صحیح الترغیب و الترہیب: ۲۱۸۷ ] اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو گئے (تو ان کی سزا ضرور ملے گی) اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم انھیں پاؤ، کسی قوم میں جب بھی فحاشی (بے حیائی و بدکاری) عام ہوتی ہے، جو ان میں علانیہ کی جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں اور جو بھی قوم ماپ اور تول میں کمی کرتی ہے انھیں قحط سالیوں، مشقت کی سختی اور بادشاہ کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے اور کوئی بھی قوم اپنے مالوں کی زکوٰۃ دینا چھوڑ دیتی ہے تو ان کے لیے آسمان سے بارش روک لی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو بارش سرے ہی سے نہ ہو اور جب کوئی قوم اللہ اوراس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو ان پر دوسری قوموں میں سے دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں جو ان کے قبضے سے کئی چیزیں چھین لیتے ہیں اور جن کے امراء اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور جو اللہ نے اتارا ہے اسے اختیار نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی لڑائی آپس میں ڈال دیتا ہے۔ یہ نتیجہ حدود اللہ کو معطل کرنے کا ہے، جب کہ حدود اللہ قائم کرنے سے بے حساب برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۶۶) اور سورۂ اعراف (۹۶)۔

وَ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ: اس کایہ مطلب نہیں کہ انھیں مارتے وقت تمھارے دل میں ان پر رحم اور شفقت کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو، بلکہ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حد نافذ کرنے میں تمھاری طرف سے کوئی نرمی یا ترس رکاوٹ نہ بنے۔ رہا مارتے ہوئے، یا یہ منظر دیکھ کر دل میں رحم و شفقت کا کوئی جذبہ پیدا ہونا تو یہ طبعی بات ہے، اس پر آدمی کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس پر کوئی گناہ ہے۔ گناہ یہ ہے کہ ترس کھا کر حد نافذ نہ کی جائے، یا ترس کھا کر حد نہ لگانے کی سفارش کی جائے، یا اس قدر آہستہ کوڑے مارے جائیں کہ حد کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔ قرہ مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو میں اس پر رحم کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ وَالشَّاةُ إِنْ رَحِمْتَهَا رَحِمَكَ اللّٰهُ، مَرَّتَيْنِ ] [ الأدب المفرد للبخاري: ۳۷۳۔ مسند أحمد: 436/3، ح: ۱۵۵۹۸ ] اور بکری پر اگر تو رحم کرے گا تو اللہ تجھ پر رحم کرے گا۔ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔

➑ وہ جرم، جس کی حد اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے، وہ حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے آپس میں معاف کیا جا سکتا ہے، حاکم کے پاس مقدمہ پیش ہونے کے بعد نہ سفارش کی اجازت ہے، نہ حاکم کو حد معاف کرنے کا اختیار ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ تَعَافَوُا الْحُدُوْدَ فِيْمَا بَيْنَكُمْ فَمَا بَلَغَنِيْ مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ ] [أبوداوٗد، الحدود، باب یعفی عن الحدود…: ۴۳۷۶۔ نسائي: ۴۸۹۰، قال الألباني صحیح ] حدود کو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو، کیونکہ میرے پاس جو بھی حد آئے گی واجب ہو جائے گی۔

عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ قریش کو مخزومی عورت کے معاملے نے فکر میں ڈال دیا، جس نے چوری کی تھی، کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کون بات کرے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اسامہ بن زید کے سوا کون یہ جرأت کرے گا۔ تو اسامہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰهِ؟ ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا ضَلَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا سَرَقَ الشَّرِيْفُ تَرَكُوْهُ، وَ إِذَا سَرَقَ الضَّعِيْفُ فِيْهِمْ أَقَامُوْا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللّٰهِ! لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ يَدَهَا ] [ بخاري، الحدود، باب کراھیۃ الشفاعۃ في الحد إذا رفع إلی السلطان: ۶۷۸۸۔ مسلم: ۱۶۸۸ ] کیا تم اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کر رہے ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور خطبہ دیا، فرمایا: لوگو! تم سے پہلے لوگ اسی لیے گمراہ ہو گئے کہ جب اونچا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی چوری کرتی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔

وَ لْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ: اللہ تعالیٰ کی حدود کے دو مقصد ہیں، ایک یہ کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے، دوسرا یہ کہ وہ اس کے لیے اور لوگوں کے لیے عبرت بنے اور وہ اس جرم سے باز رہیں، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» [ المائدۃ: ۳۸ ] اور جو چوری کرنے والا ہے اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب کمال حکمت والا ہے۔ چور کا کٹا ہوا ہاتھ عبرت کے لیے کافی ہے، یہاں زانی کے لیے حد لگاتے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونے کا حکم دیا، تاکہ باعث عبرت ہو۔ کوڑے مارتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی بجائے خود ایک سزا ہے، کیونکہ کوڑوں کی تکلیف تو ختم ہو جاتی ہے مگر رسوائی کا احساس جلدی ختم ہونے والا نہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے حد لگانے کی صورت میں اس بات کی گنجائش بھی نہیں رہے گی کہ حد معطل کر دی جائے، یا اس میں کمی یا نرمی کی جائے۔

➓ شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کرے تو اس کی حد رجم ہے جو قرآن، سنت متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ یہ حکم قرآن مجید میں موجود آیات کے ساتھ بھی ثابت ہے اور قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہے جس کی تلاوت منسوخ ہے، لیکن اس کا حکم باقی ہے۔ قرآن مجید میں موجود آیت کے ذکر سے پہلے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ پہلے انبیاء اور ان کی امتوں پر نازل شدہ احکام جو قرآن نے ذکر فرمائے ہیں اور قرآن و سنت میں ان کے منسوخ ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا، ان پر عمل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پوری امت پر فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں اٹھارہ (۱۸) پیغمبروں کا نام لیا اور ان کے آباء اور اولاد و اخوان کا ذکر فرمایا، پھر فرمایا: «‏‏‏‏اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ» ‏‏‏‏ [الأنعام: ۹۰ ] یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ رجم کی سزا کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ میں تورات کے حوالے سے فرمایا ہے: «‏‏‏‏وَ كَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِيْهَا حُكْمُ اللّٰهِ» [ المائدۃ: ۴۳ ] اور وہ تجھے کیسے منصف بنائیں گے جب کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے۔ یہ حکم رجم تھا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے فوائد میں گزر چکا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے موافق فیصلہ فرمایا اور فرمایا: [ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوْهُ ] اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا، جب انھوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔ مفصل حدیث اس طرح ہے کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کے پاس سے گزرے جس کا منہ کالا کیا ہوا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا اور فرمایا: [ هٰكَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ كِتَابِكُمْ؟ قَالُوْا نَعَمْ، فَدَعَا رَجُلًا مِنْ عُلَمَائِهِمْ، فَقَالَ أَنْشُدُكَ بِاللّٰهِ الَّذِيْ أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلٰی مُوْسٰی! أَهٰكَذَا تَجِدُوْنَ حَدَّ الزَّانِيْ فِيْ كِتَابِكُمْ؟ قَالَ لَا، وَلَوْ لَا أَنَّكَ نَشَدْتَنِيْ بِهٰذَا لَمْ أُخْبِرْكَ، نَجِدُهُ الرَّجْمَ، وَلٰكِنَّهُ كَثُرَ فِيْ أَشْرَافِنَا، فَكُنَّا إِذَا أَخَذْنَا الشَّرِيْفَ تَرَكْنَاهُ، وَإِذَا أَخَذْنَا الضَّعِيْفَ، أَقَمْنَا عَلَيْهِ الْحَدَّ، قُلْنَا تَعَالَوْا فَلْنَجْتَمِعْ عَلٰی شَيْءٍ نُقِيْمُهُ عَلَی الشَّرِيْفِ وَالْوَضِيْعِ، فَجَعَلْنَا التَّحْمِيْمَ وَالْجَلْدَ مَكَانَ الرَّجْمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَوَّلُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَكَ إِذْ أَمَاتُوْهُ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ] [مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ في الزنٰی: ۱۷۰۰ ] کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی حد ایسے ہی پاتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی، کیا تم اپنی کتاب میں زنا کی حد ایسے ہی پاتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں! اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتاتا۔ ہم وہ (حد) رجم ہی پاتے ہیں، لیکن یہ کام (زنا) ہمارے بڑے لوگوں میں عام ہو گیا تو ہم جب بڑے کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کر دیتے۔ تو ہم نے کہا، آؤ ہم کسی ایسی سزا پر متفق ہو جائیں جو ہم اونچے لوگوں اور کمزور لوگوں سب پر قائم کریں، تو ہم نے رجم کی جگہ منہ کالا کرنا اور کوڑے مارنا مقرر کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرا حکم زندہ کیا جب انھوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔ اس حدیث کے بعد سورۂ مائدہ کی آیات (۴۱ تا ۵۰) ملاحظہ فرمائیں، رجم اللہ کا حکم ہونا بالکل واضح ہو جائے گا۔

تورات کے اس حکم رجم کو اللہ کا حکم قرار دے کر اس پر عمل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اعضا کے قصاص کا ذکر تورات کے حوالے سے فرمایا۔ قرآن میں اعضا کے قصاص کا اس کے سوا کہیں ذکر نہیں، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضا کے قصاص کا حکم دیا اور امت اعضا کے قصاص پر متفق ہے، فرمایا: «وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ» ‏‏‏‏ [ المائدۃ: ۴۵ ] اور اس میں ہم نے ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلا ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ مائدہ کی آیت (۴۸) میں قرآن کو پہلی کتابوں پر مُهَيْمِنًا فرمانے سے ایک مقصد یہ بھی ظاہر ہے کہ شادی شدہ زانی کے رجم اور نفس اور اعضا کے قصاص کا مسئلہ اب قرآن کے زیر حفاظت ہے۔

⓫ قرآن کی وہ آیت جس میں رجم کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت منسوخ اور حکم باقی ہے، اس کا ذکر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر نہایت شدّ و مد سے فرمایا، جب آپ کو فکر ہوئی کہ کچھ لوگ قرآن میں رجم کا صریح لفظ نہیں دیکھیں گے تو اس کا انکار کر دیں گے (جیسا کہ خارجیوں نے اور ہمارے زمانے کے کچھ آزاد خیال لوگوں نے کیا ہے) تو اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اپنے عمل کا حوالہ بھی دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خطبہ مروی ہے، جو انھوں نے اپنے آخری حج سے واپس آ کر مدینہ میں دیا۔ اس میں مذکور ہے کہ انھوں نے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَ أَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللّٰهُ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاهَا وَ عَقَلْنَاهَا وَ وَعَيْنَاهَا، رَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَ رَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَی إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَّقُوْلَ قَائِلٌ، وَاللّٰهِ! مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ، فَيَضِلُّوْا بِتَرْكِ فَرِيْضَةٍ أَنْزَلَهَا اللّٰهُ، وَالرَّجْمُ فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ حَقٌّ عَلٰی مَنْ زَنٰی إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الْاِعْتِرَافُ] [بخاري، الحدود، باب



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.