تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 23) وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ …: هَبَآءً غبار کے ان ذرّات کو کہتے ہیں جو روشن دان کے ذریعے سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کوئی شخص جسے کسی چیز سے شدید کراہت و نفرت ہو وہ اسے کسی دوسرے کے ہاتھوں تباہ و برباد کرنے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ وہ خود اسے تباہ و برباد کرتا ہے، اس لیے فرمایا کہ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے، دنیا میں دیکھیں یا آخرت میں، تو انھوں نے اپنے خیال میں جو بھی اچھا عمل کیا ہو گا، خواہ سخاوت ہو یا صلہ رحمی یا مظلوم کی مدد یا بیت اللہ کی آباد کاری اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، ہم خود اس کی طرف آئیں گے اور اسے بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے ایمان، اخلاص اور اس کا شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے، جب کہ ان کے اعمال اس سے خالی تھے۔ روشن دان سے آنے والی روشنی میں سکون کی حالت میں غبار کے ذرات پھر بھی کچھ مرتب اور موجود نظر آتے ہیں، لیکن جب انھیں ہوا یا کوئی اور چیز حرکت دیتی ہے تو کچھ ہاتھ نہیں آتا اور وہ سب بکھر کر کالعدم ہو جاتے ہیں، اس لیے انھیں بکھرا ہوا غبار فرمایا۔ (بقاعی) کفار کے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے کہیں رَمَادٌ (راکھ) کے ساتھ تشبیہ دی ہے (دیکھیے ابراہیم: ۱۸)، کہیں سراب کے ساتھ (دیکھیے نور: ۳۹) اور کہیں فرمایا کہ ہم ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (دیکھیے کہف: ۱۰۵)۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.