تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 46) ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا …: یعنی آہستہ آہستہ گھٹاتے ہوئے ہم اسے بالکل مٹا دیتے ہیں، جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے سایہ بھی بتدریج کم ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ نصف النہار کے وقت بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سورج کے مغرب کی طرف ڈھلنے کے ساتھ سائے کو بڑھاتے بڑھاتے رات کے آنے پر اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔

➋ اپنی طرف سمیٹنے سے مراد غائب کرنا اور فنا کر دینا ہے، کیونکہ ہر چیز کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، ہر چیز اسی کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف جاتی ہے، چنانچہ فرمایا: « وَ لِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ » [ ھود: ۱۲۳ ] اور اللہ ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کا غیب ہے اور سب کے سب کام اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔

قَبْضًا يَّسِيْرًا: یعنی اتنا آہستہ کہ پوری طرح اس کے سمٹنے کا ادراک نہایت مشکل ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.