تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 59)الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا …: اس کی تفسیر سورۂ یونس، ہود اور طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں ان صفات کا ذکر اللہ تعالیٰ پر توکل کی تلقین کے لیے بھی ہے اور اس میں نزول قرآن میں تدریج پر اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ بھی ہے۔

فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا: پورے باخبر سے مراد خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہے اور بِهٖ سے مراد عَنْهُ (اس کے متعلق) ہے۔ اس آیت میں مزید وہ افعال و اوصاف ذکر فرمائے ہیں جن کی وجہ سے اللہ پر توکل کرنا چاہیے، یعنی اس پر توکل کر جو ہمیشہ زندہ ہے، جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہو گیا، جو بے حد رحم والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش، استواء علی العرش اور اس کی لا محدود رحمت کے بارے میں اہلِ کتاب یا مشرکین کیا جانیں، ان کی تفصیلات کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، لہٰذا اسی سے دریافت کیجیے۔ دوسری جگہ فرمایا: « وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ» [ فاطر: ۱۴ ] اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ جیسا پورا باخبر۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.