تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 2) تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ: یہ تمہیدی فقرہ اس مضمون کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے جو اس سورت میں آگے بیان ہوا ہے۔ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشانی (معجزہ) مانگتے تھے، تاکہ اسے دیکھ کر انھیں اطمینان ہو جائے کہ آپ واقعی یہ پیغام اللہ کی طرف سے لائے ہیں۔ فرمایا، اگر کسی کو ایمان لانے کے لیے نشانی کی طلب ہے تو کتابِ مبین کی یہ آیات موجود ہیں، مزید کسی معجزے کی ضرورت نہیں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ہر واقعہ کے آخر پر دہرایا ہے: « اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً » [ الشعراء: ۸ ] بے شک اس میں یقینا عظیم نشانی ہے۔ یعنی قرآن میں آنے والی ہر آیت اور ہر واقعہ ہی معجزہ ہے، جو قرآن کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ہے اور جس کا جواب لانے سے پوری مخلوق عاجز ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.