تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 6) فَقَدْ كَذَّبُوْا …: یعنی یہ لوگ صرف اعراض تک ہی نہیں رہے بلکہ انھوں نے صاف جھٹلا دیا اور اس سے بڑھ کر ان چیزوں کا مذاق بھی اڑانے لگے جن کے آنے کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، جیساکہ كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ سے معلوم ہو رہا ہے۔

فَسَيَاْتِيْهِمْ۠ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ: یعنی پیغمبر نے انھیں جن چیزوں کے واقع ہونے کی خبریں دیں، جن کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے، وہ بہت جلد ان کی آنکھوں کے سامنے آ جائیں گی اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ حق تھیں۔ اس میں کفار کے لیے سخت وعید ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۴، ۵)۔

اَنْۢبٰٓؤُا نَبَأٌ کی جمع ہے، کسی بڑے واقعہ کی خبر کو نَبَأٌ کہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: « وَ لَقَدْ جَآءَكَ مِنْ نَّبَاِي الْمُرْسَلِيْنَ» [الأنعام: ۳۴ ] اور بلاشبہ یقینا تیرے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں۔ اَنْۢبٰٓؤُا جمع کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بہت سی باتوں کا مذاق اڑاتے رہے تھے، مثلاً قیامت، دنیا میں ان کو ملنے والی سزا، مسلمانوں کا غالب آنا، فتح مکہ، جہنم کا عذاب اور زقوم کا درخت وغیرہ۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.