تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 29) قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ …: ہر ظالم و جابر اور باطل کے علم بردار حکمران کا وتیرہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھاتا ہے تو آخری حربے کے طور پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتا ہے کہ یا تو ہمارے غلط کو بھی صحیح مانو، ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ فرعون نے بھی آخر میں صاف کہہ دیا کہ مصر میں میرے سوا کوئی خدا نہیں اور نہ کسی کا حکم چلے گا، اگر میرے سوا کسی اور معبود کی حکومت مانی تو تمھارے لیے قید خانہ تیار ہے۔

لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ: فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہنے کے بجائے کہلَأَسْجُنَنَّكَ (میں تجھے قید کر دوں گا) یہ کہا کہ میں تجھے قید کیے ہوئے لوگوں میں شامل کر دوں گا۔ اس میں وہ موسیٰ علیہ السلام کو نہایت خوفناک نتیجے سے ڈرا رہا تھا کہ ان لوگوں کا حال دیکھ لو جنھیں میں نے قید کر رکھا ہے، تمھیں بھی ان کے ساتھ شامل کر دوں گا۔ واضح رہے کہ آخرت کا منکر اور جواب دہی کے احساس سے عاری ہونے کی وجہ سے فرعون نہایت سنگدل تھا اور انسانیت اور رحم سے یکسر ناآشنا تھا، وہ اپنے مخالفوں سے قید خانے میں جو سلوک کرتا ہو گا بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کو پیش نظر رکھ کر اس کا تصور کچھ مشکل نہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.