تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 157)فَعَقَرُوْهَا: اللہ تعالیٰ نے یہاں ان سب کے متعلق فرمایا کہ انھوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں، حالانکہ کونچیں کاٹنے والا صرف ایک شخص قدار تھا، جیسا کہ سورۂ شمس میں ہے: « اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا» [الشمس: ۱۲] جب اس (قوم) کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ کام پوری قوم کے مشورے اور ان کی فرمائش پر کیا تھا، جیسا کہ سورۂ قمر میں ہے: « فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰى فَعَقَرَ» [ القمر: ۲۹ ] تو انھوں نے اپنے ساتھی کو پکارا، سو اس نے (اسے) پکڑا، پس کونچیں کاٹ دیں۔ اس لیے سبھی مجرم قرار دیے گئے۔

فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِيْنَ: سورۂ ہود میں ہے کہ اونٹنی کو قتل کرنے پر صالح علیہ السلام نے انھیں تین دن کی مہلت دی، چنانچہ جب حسبِ وعدہ عذاب کے آثار نمودار ہونے لگے تو وہ ندامت کا اظہار کرنے لگے، مگر وہ وقت ندامت اور توبہ کا نہ تھا۔ (دیکھیے مومن: ۸۵) اور ان کی ندامت رسول کو جھٹلانے پر نہ تھی، بلکہ عذاب میں مبتلا ہونے پر تھی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.