تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 11) وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ: قَصَّ يَقُصُّ کا معنی بیان کرنا بھی ہے اور پیچھے پیچھے جانا بھی۔ موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے ان کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے ایک بھائی ہارون تھے اور ایک بہن تھی۔

فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ: عَنْ جُنُبٍ کا معنی دور سے یا جانب سے یعنی وہ کنارے پر رہ کر ساتھ چلتی ہوئی دور سے اسے دیکھتی رہی، اس طرح کہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس سے اس لڑکی کی دانائی اور ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ ماں نے صرف پیچھے پیچھے جانے کو کہا تھا، یہ اس کی دانش مندی تھی کہ پیچھے کس طرح جانا ہے۔ ایک عرب شاعر نے خوب کہا ہے:

إِذَا كُنْتَ فِيْ حَاجَةٍ مُرْسِلاً

فَأَرْسِلْ حَكِيْمًا وَ لَا تُوْصِهٖ


جب تم کسی کام کے لیے بھیجو تو دانا آدمی کو بھیجو، پھر اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.