تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 8) وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا: اللہ پر ایمان اور عمل صالح کی تلقین اور اس کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا، کیونکہ انھی سے انسان کا وجود ہوتا ہے، باپ خرچ کرتا اور پرورش کرتا ہے، جبکہ ماں دودھ پلاتی اور پالتی ہے۔ قرآن مجید میں عموماً اللہ کے حق کے بعد والدین کا حق بیان ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا: « وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا » [ بني إسرائیل: ۲۳ ] اور تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو اُف مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔

➋ بقاعی نے پچھلی آیات کے ساتھ اس آیت کا یہ ربط نکالا ہے کہ آزمائش کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کو اس کے والدین کفروشرک پر مجبور کریں تو ایسے موقع پر اسے ثابت قدم رہنا چاہیے اور کفروشرک کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔

وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا: یعنی اگر والدین تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان، یعنی جس کے شریک ہونے کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں، کیونکہ علم وہ ہے جس کی دلیل ہو۔ مقصد یہ ہے کہ بھلا شرک کی بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے، وہ تو محض توہم پرستی اور تقلید کے اندھے پن سے وجود میں آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کے کہنے پر اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی صورت جائز نہیں، صرف شرک ہی نہیں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بھی نافرمانی ماں باپ یا کسی مخلوق کے کہنے پر جائز نہیں۔ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ ] [ مسند أحمد: 131/1، ح: ۱۰۹۹، صحیح علٰی شرط مسلم ] اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيْمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ عَلَيْهِ وَ لاَ طَاعَةَ ] [ ترمذي، الجہاد، باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق: ۱۷۰۷، و صححہ الترمذي و الألباني ] سننا اور ماننا مسلمان آدمی پر فرض ہے ان حکموںمیں جو اسے پسند ہوں یا ناپسند ہوں، جب تک اسے (اللہ کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، تو جب اسے (اللہ کی کسی) نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا جائز ہے نہ ماننا۔

➍ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیات اتریں، (ان میں سے یہ ہے کہ) سعد کی ماں نے (ان کے مسلمان ہونے پر) قسم کھا لی کہ اس سے کبھی کلام نہیں کرے گی جب تک وہ اپنے دین سے کافر نہ ہو جائے اور نہ کھائے گی نہ پیے گی۔ اس نے کہا، تم کہتے ہو کہ اللہ نے تمھیں والدین کے بارے میں وصیت کی ہے اور میں تمھاری ماں ہوں اور تمھیں یہ حکم دیتی ہوں۔ سعد نے کہا، وہ تین دن ایسے ہی رہی، حتیٰ کہ بھوک سے اس پر غشی طاری ہو گئی، تو اس کا ایک بیٹا اٹھا جس کا نام عمارہ تھا، اس نے اسے (پانی وغیرہ) پلایا تو وہ (ہوش میں آ کر) سعد پر بدعائیں کرنے لگی، اس پر اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: « وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا » [ العنکبوت: ۸ ] اور یہ آیت: « وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰۤى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا » [ لقمان: ۱۵ ] [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب في فضل سعد بن أبي وقاص رضی اللہ عنہ: ۱۷۴۸، بعد الحدیث: ۲۴۱۲ ]

اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ …: یعنی دنیا کی یہ رشتہ داریاں اور والدین کے حقوق اس دنیا کی حد تک ہیں، آخر کار ماں باپ اور اولاد سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور پلٹ کر جانا ہے، پھر اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہی پر مجبور کیا یا ناحق زیادتی کی تو وہ پکڑے جائیں گے اور اگر اولاد نے والدین کے جائز حقوق میں کوتاہی کی تو ان سے باز پرس ہو گی۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.