English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:

8. بَابُ الْمُزَارَعَةِ بِالشَّطْرِ وَنَحْوِهِ:
باب: آدھی یا کم و زیادہ پیداوار پر بٹائی کرنا۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: Q2328
وَقَالَ قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلاَّ يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ. وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ. وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ، وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ كَذَا. وَقَالَ الْحَسَنُ لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ الأَرْضُ لأَحَدِهِمَا فَيُنْفِقَانِ جَمِيعًا فَمَا خَرَجَ فَهْوَ بَيْنَهُمَا، وَرَأَى ذَلِكَ الزُّهْرِيُّ. وَقَالَ الْحَسَنُ لاَ بَأْسَ أَنْ يُجْتَنَى الْقُطْنُ عَلَى النِّصْفِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَابْنُ سِيرِينَ وَعَطَاءٌ وَالْحَكَمُ وَالزُّهْرِيُّ وَقَتَادَةُ لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْطِيَ الثَّوْبَ بِالثُّلُثِ أَوِ الرُّبُعِ وَنَحْوِهِ. وَقَالَ مَعْمَرٌ لاَ بَأْسَ أَنْ تَكُونَ الْمَاشِيَةُ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى.
(یہ بلا تردد جائز ہے) اور قیس بن مسلم نے بیان کیا اور ان سے ابوجعفر نے بیان کیا کہ مدینہ میں مہاجرین کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جو تہائی یا چوتھائی حصہ پر کاشتکاری نہ کرتا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ اور سعد بن مالک اور عبداللہ بن مسعود، اور عمر بن عبدالعزیز اور قاسم اور عروہ اور ابوبکر کی اولاد اور عمر کی اولاد اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد اور ابن سیرین سب بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ اور عبدالرحمٰن بن اسود نے کہا کہ میں عبدالرحمٰن بن یزید کے ساتھ کھیتی میں ساجھی رہا کرتا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کاشت کا معاملہ اس شرط پر طے کیا تھا کہ اگر بیج وہ خود (عمر رضی اللہ عنہ) مہیا کریں تو پیداوار کا آدھا حصہ لیں اور اگر تخم ان لوگوں کا ہو جو کام کریں گے تو پیداوار کے اتنے حصے کے وہ مالک ہوں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زمین کسی ایک شخص کی ہو اور اس پر خرچ دونوں (مالک اور کاشتکار) مل کر کریں۔ پھر جو پیداوار ہو اسے دونوں بانٹ لیں۔ زہری رحمہ اللہ نے بھی یہی فتوی دیا تھا۔ اور حسن نے کہا کہ کپاس اگر آدھی (لینے کی شرط) پر چنی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم، ابن سیرین، عطاء، حکم، زہری اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ (کپڑا بننے والوں کو) دھاگا اگر تہائی، چوتھائی یا اسی طرح کی شرکت پر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معمر نے کہا کہ اگر جانور ایک معین مدت کے لیے اس کی تہائی یا چوتھائی کمائی پر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: Q2328]

اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2328
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ، فَكَانَ يُعْطِي أَزْوَاجَهُ مِائَةَ وَسْقٍ، ثَمَانُونَ وَسْقَ تَمْرٍ، وَعِشْرُونَ وَسْقَ شَعِيرٍ"، فَقَسَمَ عُمَرُ خَيْبَرَ، فَخَيَّرَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ لَهُنَّ مِنَ الْمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ يُمْضِيَ لَهُنَّ، فَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْأَرْضَ، وَمِنْهُنَّ مَنِ اخْتَارَ الْوَسْقَ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ اخْتَارَتِ الْأَرْضَ.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے، ان سے نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خیبر کے یہودیوں سے) وہاں (کی زمین میں) پھل کھیتی اور جو بھی پیداوار ہو اس کے آدھے حصے پر معاملہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی بیویوں کو سو وسق دیتے تھے۔ جس میں اسی وسق کھجور ہوتی اور بیس وسق جو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے عہد خلافت میں) جب خیبر کی زمین تقسیم کی تو ازواج مطہرات کو آپ نے اس کا اختیار دیا کہ (اگر وہ چاہیں تو) انہیں بھی وہاں کا پانی اور قطعہ زمین دے دیا جائے۔ یا وہی پہلی صورت باقی رکھی جائے۔ چنانچہ بعض نے زمین لینا پسند کیا۔ اور بعض نے (پیداوار سے) وسق لینا پسند کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمین ہی لینا پسند کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ/حدیث: 2328]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں