(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو يعني ابن دينار، عن عمرو بن اوس، عن عبد الله بن عمرو، يرفعه قال: "احب الصيام إلى الله عز وجل صيام داود، كان يصوم يوما ويفطر يوما، واحب الصلاة إلى الله عز وجل صلاة داود، كان يصلي نصفا، وينام ثلثا، ويسبح سدسا". قال ابو محمد: هذا اللفظ الاخير غلط او خطا، إنما هو انه كان ينام نصف الليل ويصلي ثلثه، ويسبح تسبيحة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، يَرْفَعُهُ قَالَ: "أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صِيَامُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ، كَانَ يُصَلِّي نِصْفًا، وَيَنَامُ ثُلُثًا، وَيُسَبِّحُ سُدُسًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هَذَا اللَّفْظُ الْأَخِيرُ غَلَطٌ أَوْ خَطَأٌ، إِنَّمَا هُوَ أَنَّهُ كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيُصَلِّي ثُلُثَهُ، وَيُسَبِّحُ تَسْبِيحَةً.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے مرفوعاً بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کو روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کو (رات کی) نمازوں میں سب زیادہ محبوب داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، وہ آدھی رات نماز پڑھتے، ایک تہائی سوتے، اور رات کا چھٹا حصہ تسبیح پڑھتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ آخری جملہ غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ آدھی رات وہ سوتے، ایک تہائی نماز پڑھتے، اور ایک سدس تسبیح کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1793]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1131]، [مسلم 1159/189]، [أبوداؤد 2448]، [نسائي 1629]، [ابن ماجه 1712]، [ابن حبان 352، 2950]، [مسند الحميدي 600، 601]
وضاحت: (تشریح حدیث 1789) یہاں محل شاہد حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے جو ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے، اور یہی افضل ترین طریقہ ہے، جس کو استطاعت ہو ایسا کر سکتا ہے، قوت نہیں تو کوئی ضروری نہیں، روزہ ایک عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہے، جس کے بارے میں حدیثِ قدسی ہے: «اَلصَّوْمُ لِيْ وَ أَنَا أَجْزِيْ بِهِ»(ترجمہ: روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا)، اور یہ فرض و نفل ہر قسم کے روزے کو شامل ہے۔ صحیحین اور سنن میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ روزانہ روزہ رکھا کرتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صومِ داؤدی کی طرف رہنمائی فرمائی اور فرمایا: اس سے افضل کوئی روز نہیں، کیونکہ ہر دن روزہ رکھنے سے دیگر حقوق ادا کرنے میں کمی پیدا ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ بالا حدیث قیام اللیل کی ہے اور اس میں بھی داؤد علیہ السلام کا طرزِ عمل قابلِ اتباع ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کا بھی یہی طریقۂ عمل تھا، آدھی رات کے بارہ گھنٹے ہوں تو شروع کے چھ گھنٹے سونا، چار گھنٹے (عبادت کرنا) نماز پڑھنا، اور دو گھنٹے تسبیح و تہلیل یا دو گھنٹے آرام کرنا، یہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ «(واللّٰه اعلم وعلمه أتم)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دن روزہ رکھنا جائز نہیں عید الفطر اور عید قربان کے دن۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1794]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1992، 1995]، [مسلم 1137]، [أبوداؤد 2417]، [ترمذي 772]، [ابن ماجه 1721]، [أبويعلی 1160]، [ابن حبان 1617]، [الحميدي 767]
وضاحت: (تشریح حدیث 1790) اس حدیث سے عیدین کے دنوں میں روزہ رکھنے کی ممانعت معلوم ہوئی اور یہ نہی تحریمی ہے، یعنی عید کے دن کسی بھی صورت میں روزہ رکھنا ناجائز ہی نہیں بلکہ حرام ہے کیونکہ یہ دن مسلمانوں کے کھانے پینے اور کھیلنے کے دن ہیں۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لے تو یہ پورے سال روزہ رکھنے کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1795]» اس روایت کی سند حسن لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1164]، [أبوداؤد 2433]، [ترمذي 759]، [ابن ماجه 1716]، [ابن حبان 3634]، [الحميدي 385] و [مجمع الزوائد 5177]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک سال کے روزے اس طرح ہوئے) کہ ایک مہینے کے روزے دس مہینے کے ہوئے اور ان کے بعد چھ دن کے روزے دو مہینے کے روزے ہوئے، اس طرح بارہ مہینے ہو گئے اور ایک سال پورا ہو گیا۔“ یعنی ایک مہینہ رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1796]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1715]، [ابن حبان 3635]، [موارد الظمآن 928]
وضاحت: (تشریح احادیث 1791 سے 1793) ابن ماجہ میں ہے: یہ فرمانِ الٰہی: « ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ...﴾[الانعام: 160] » کے مطابق ہے کہ جو ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا، اب 36 کو 10 سے ضرب دیجئے تو 360 دن بنتے ہیں، لہٰذا جس شخص نے 36 دن کے روزے رکھے تو اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب مل گیا، سبحان رب ذوالجلال رحیم و کریم کی کتنی عنایت و مہربانی ہے کہ روزے سوا مہینے کے اور ثواب پورے سال کا، شوال کے یہ روزے شروع شوال، وسط یا آخر میں کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں، اور یکبارگی مسلسل یا متفرق طور پر بھی رکھے جا سکتے ہیں، لیکن «ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتَّةً» سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ شروع شوال میں یکبارگی رکھے جائیں تو بہتر ہے۔ واللہ اعلم۔ واضح رہے کہ بعض ائمہ نے رمضان کے بعد شش عیدی روزوں کو مکروہ کہا ہے جو صحیح نہیں، ہو سکتا ہے ان کو مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ کا علم نہ ہو۔ علامہ وحیدالزماں رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: اور قولِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کسی کا قول نہیں سنا جاتا اور شمس کے آگے چراغ جلانا حماقت ہے۔ «انتهىٰ كلامه.»
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن سعيد، حدثنا محمد بن فضيل، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، قال: جاء رجل إلى علي فساله عن شهر بعد شهر رمضان يصومه، فقال له علي: ما سالني احد عن هذا بعد إذ سمعت رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: اي شهر يصومه من السنة بعد شهر رمضان. فامره بصيام المحرم، وقال:"إن فيه يوما تاب الله على قوم ويتوب فيه على قوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَلِيٍّ فَسَأَلَهُ عَنْ شَهْرٍ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ يَصُومُهُ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: مَا سَأَلَنِي أَحَدٌ عَنْ هَذَا بَعْدَ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ شَهْرٍ يَصُومُهُ مِنْ السَّنَةِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ. فَأَمَرَهُ بِصِيَامِ الْمُحَرَّمِ، وَقَالَ:"إِنَّ فِيهِ يَوْمًا تَابَ اللَّهُ عَلَى قَوْمٍ وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ".
نعمان بن سعد نے کہا ایک شخص سیدنا على رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ رمضان کے مہینے کے بعد کون سے مہینے میں روزے رکھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اس بارے میں جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کسی نے مجھ سے اب تک نہیں پوچھا، ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ وہ رمضان کے بعد سال کے کس مہینے میں روزے رکھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو محرم کے روزے رکھنے کا حکم دیا، اور فرمایا: ”اس دن میں الله تعالیٰ نے ایک قوم پر رحمت کی اور آگے ایک قوم پر اور رحمت کرے گا۔“(پہلی قوم سے مراد بنی اسرائیل ہیں اور دوسری قوم يقيناً امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 1797]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 741]، [أبويعلی 267]، [ابن أبى شيبه 41/3]، [عبدالله بن الإمام أحمد فى الزوائد على المسند 155/1، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن إسحاق
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے بعد بہترین روزے اس مہینے کے روزے ہیں جس کو تم محرم کہتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «زيد بن عوف متروك واتهمه أبو زرعة. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1798]» اس روایت کی سند میں زید بن عوف متروک ہیں، لیکن دوسری اسانید سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1162]، [أبوداؤد 2429]، [ترمذي 438]، [نسائي 1612]، [ابن ماجه 1742]، [ابن حبان 2563، 3636]، [أحمد 303/2]، [بغوي 923، 1788]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: زيد بن عوف متروك واتهمه أبو زرعة. ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، انه قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، واليهود يصومون يوم عاشوراء، فسالهم، فقالوا: هذا اليوم الذي ظهر فيه موسى على فرعون. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انتم اولى بموسى فصوموه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَالْيَهُودُ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي ظَهَرَ فِيهِ مُوسَى عَلَى فِرْعَوْنَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْتُمْ أَوْلَى بِمُوسَى فَصُومُوهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (اس کا سبب) پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس دن میں موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ حاصل ہوا (اور فتح حاصل ہوئی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک ترین ہو، روزہ رکھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1800]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2004]، [مسلم 1130]، [أبوداؤد 2444]، [ابن ماجه 1734]، [أبويعلی 2567]، [ابن حبان 3625]، [مسندالحميدي 525]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث يوم عاشوراء رجلا من اسلم:"إن اليوم يوم عاشوراء، فمن كان اكل او شرب، فليتم بقية يومه، ومن لم يكن اكل او شرب، فليصمه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ:"إِنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ كَانَ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيَصُمْهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو یہ پیغام لے کر عاشوراء کے دن بھیجا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بقیہ دن روزہ پورا کرے، اور جس نے کھایا پیا نہیں ہے وہ اس دن کا روزہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1802]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1924]، [مسلم 1135]، [ابن حبان 3619]، [نسائي 2320]