حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کر کے سدس (چھٹا حصہ) دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2963]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [المحلی لابن حزم 284/9]۔ ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل ہے اور وہیب: ابن خالد ہیں اور یونس: ابن عبید بن دینار ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، قال: كان علي"يشرك الجد إلى ستة مع الإخوة، يعطي كل صاحب فريضة فريضته، ولا يورث اخا لام مع جد، ولا اختا لام، ولا يزيد الجد مع الولد على السدس، إلا ان يكون غيره، ولا يقاسم باخ لاب مع اخ لاب وام، وإذا كانت اخت لاب وام، واخ لاب، اعطى الاخت النصف، والنصف الآخر بين الجد والاخ نصفين، وإذا كانوا إخوة واخوات، شركهم مع الجد إلى السدس.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ"يُشَرِّكُ الْجَدَّ إِلَى سِتَّةٍ مَعَ الْإِخْوَةِ، يُعْطِي كُلَّ صَاحِبِ فَرِيضَةٍ فَرِيضَتَهُ، وَلَا يُوَرِّثُ أَخًا لِأُمٍّ مَعَ جَدٍّ، وَلَا أُخْتًا لِأُمٍّ، وَلَا يَزِيدُ الْجَدَّ مَعَ الْوَلَدِ عَلَى السُّدُسِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ غَيْرُهُ، وَلَا يُقَاسِمُ بِأَخٍ لِأَبٍ مَعَ أَخٍ لِأَبٍ وَأُمٍّ، وَإِذَا كَانَتْ أُخْتٌ لِأَبٍ وَأُمٍّ، وَأَخٌ لِأَبٍ، أَعْطَى الْأُخْتَ النِّصْفَ، وَالنِّصْفَ الْآخَرَ بَيْنَ الْجَدِّ وَالْأَخِ نِصْفَيْنِ، وَإِذَا كَانُوا إِخْوَةً وَأَخَوَاتٍ، شَرَّكَهُمْ مَعَ الْجَدِّ إِلَى السُّدُسِ.
ابراہیم نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ دادا کے ساتھ بھائیوں کو شریک کر کے چھ بناتے اور ہر ایک کو ایک ایک حصہ دیتے تھے، اور دادا کے ساتھ مادری بھائی اور بہن کو وراثت میں سے کچھ نہ دیتے، اور اولاد کے ساتھ دادا کے حصہ میں سدس سے زیادہ نہ دیتے تھے الا یہ کہ ولد کے علاوہ کوئی اور ہو، اور مادری بھائی کے ساتھ حقیقی بھائی ہو تو مادری بھائی کو کچھ نہ دیتے، اور اگرحقیقی بہن اور پدری بھائی ہوں تو بہن کو آدھا دیتے اور باقی بچا نصف پدری بھائی اور دادا کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کر دیتے تھے، اور اگر وارثین میں بھائی اور بہنیں ہوں تو سدس (چھٹے حصے) کے ساتھ دادا کو شریک کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 2965]» اس اثر کی سند ابراہیم تک علی شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11282]، [عبدالرزاق 19064]، [البيهقي 349/6]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري إلى إبراهيم
عبدالرحمٰن بن معقل نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دادا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: تمہارے باپ (دادا) میں کون سب سے بڑا ہے؟ (وفي روايۃ: اس سائل سے جواب نہ بن پڑا تو) میں نے کہا: آدم (سب سے بڑے باپ ہیں) انہوں نے جواب دیا: تم نے اللہ تعالیٰ کا قول سنانہیں ”یا بنی آدم“۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن عبد الله بن خالد لم يسمع ابن عباس بينهما الضحاك، [مكتبه الشامله نمبر: 2966]» اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن عبداللہ بن خالد کا سماع سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11254]، [البيهقي 246/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 2948 سے 2957) مطلب غالباً ان کا یہ تھا کہ جدِ اعلیٰ آدم علیہ السلام کو باپ ہی گردانا، کیوں کہ جب لوگ بنی آدم ہیں تو آدم علیہ السلام ان کے باپ ہی ہوئے، اور جب جدِ اعلیٰ باپ ہے تو جدِ ادنیٰ چھوٹے دادا بھی باپ ہی کے درجہ میں ہوں گے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن عبد الله بن خالد لم يسمع ابن عباس بينهما الضحاك
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میری خواہش ہے کہ (دادا کے بارے میں) میں اور جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک دوسرے پر لعنت کریں جس کا قول غلط ہو (یعنی اس پر لعنت ہو جس کا قول غلط ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 2967]» اس اثر کی سند میں ”رجل“ غیرمعروف ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [عبدالرزاق 19024]، [ابن منصور 37]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
(حديث موقوف) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق قال: دخلت على شريح وعنده عامر، وإبراهيم، وعبد الرحمن بن عبد الله في فريضة امراة منا: العالية، تركت زوجها، وامها، واخاها لابيها، وجدها، فقال لي: هل من اخت؟ قلت: لا، قال: للبعل الشطر وللام الثلث، قال: فجهدت على ان يجيبني، فلم يجبني إلا بذلك، فقال إبراهيم، وعامر، وعبد الرحمن بن عبد الله: ما جاء احد بفريضة اعضل من فريضة جئت بها، قال: فاتيت عبيدة السلماني وكان يقال: ليس بالكوفة احد اعلم بفريضة من عبيدة، والحارث الاعور، وكان عبيدة يجلس في المسجد، فإذا وردت على شريح فريضة فيها جد، رفعهم إلى عبيدة، ففرض فسالته، فقال: إن شئتم نباتكم بفريضة عبد الله بن مسعود في هذا: "جعل للزوج ثلاثة اسهم النصف، وللام ثلث ما بقي، وهو السدس من راس المال، وللاخ سهم، وللجد سهم، قال ابو إسحاق: الجد ابو الاب.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى شُرَيْحٍ وَعِنْدَهُ عَامِرٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فِي فَرِيضَةِ امْرَأَةٍ مِنَّا: الْعَالِيَةِ، تَرَكَتْ زَوْجَهَا، وَأُمَّهَا، وَأَخَاهَا لِأَبِيهَا، وَجَدَّهَا، فَقَالَ لِي: هَلْ مِنْ أُخْتٍ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لِلْبَعْلِ الشَّطْرُ وَلِلْأُمِّ الثُّلُثُ، قَالَ: فَجَهِدْتُ عَلَى أَنْ يُجِيبَنِي، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَّا بِذَلِكَ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ، وَعَامِرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: مَا جَاءَ أَحَدٌ بِفَرِيضَةٍ أَعْضَلَ مِنْ فَرِيضَةٍ جِئْتَ بِهَا، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيَّ وَكَانَ يُقَال: لَيْسَ بِالْكُوفَةِ أَحَدٌ أَعْلَمَ بِفَرِيضَةٍ مِنْ عَبِيدَةَ، وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرَ، وَكَانَ عَبِيدَةُ يَجْلِسُ فِي الْمَسْجِدِ، فَإِذَا وَرَدَتْ عَلَى شُرَيْحٍ فَرِيضَةٌ فِيهَا جَدٌّ، رَفَعَهُمْ إِلَى عَبِيدَةَ، فَفَرَضَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتُمْ نَبَّأْتُكُمْ بِفَرِيضَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ فِي هَذَا: "جَعَلَ لِلزَّوْجِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ النِّصْفَ، وَلِلْأُمِّ ثُلُثُ مَا بَقِيَ، وَهُوَ السُّدُسُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ، وَلِلْأَخِ سَهْمٌ، وَلِلْجَدِّ سَهْمٌ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: الْجَدُّ أَبُو الْأَبِ.
ابواسحاق نے کہا: میں اپنی ایک خاتون عالیہ کی میراث کا مسئلہ لے کر شریح کے پاس داخل ہوا اور ان کے پاس عامر، ابراہیم، عبدالرحمٰن بن عبداللہ بیٹھے تھے، اس عورت نے اپنا شوہر، اپنی ماں، اور پدری بھائی اور دادا کو چھوڑا، قاضی شریح نے کہا: کیا اس کی کوئی بہن بھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: شوہر کے لئے نصف، ماں کے لئے ثلث (تہائی)، میں انتظار میں رہا کہ وہ مجھے اور جواب دیں گے لیکن انہوں نے جب اس کے علاوہ مجھے کوئی جواب نہ دیا تو ابراہیم و عامر اور عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے کہا: اتنا مشکل مسئلہ لے کر کوئی نہیں آیا جتنا مشکل مسئلہ لے کر تم آ ئے ہو، ابواسحاق نے کہا: چنانچہ میں عبیدہ السلمانی کے پاس گیا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کوفہ میں عبیدہ اور حارث اعور سے زیادہ فرائض جاننے والا اور کوئی نہیں، عبیدہ مسجد میں بیٹھتے تھے اور جب (قاضی) شریح کے پاس میراث کا کوئی مسئلہ آتا جس میں دادا موجود ہوتا تو اسے وہ عبیدہ کی طرف تحویل کر دیتے تھے، چنانچہ میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سناؤں، انہوں نے شوہر کو تین حصے (یعنی) نصف دیا، جو بچا اس میں سے ماں کو ایک تہائی (ثلث) دیا، یعنی راس المال کا چھٹا حصہ (سدس)، بھائی کو ایک اور دادا کو ایک حصہ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 2969]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11137، 11303]، [عبدالرزاق 19071]، [ابن منصور 130]، [البخاري فى الكبير 19/2 تعليقاً] و [البيهقي 239/6]
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دادا کو بھائیوں کے ساتھ ثلث تقسیم کرتے تھے، اور اس میں کمی نہ کرتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده إلى إبراهيم صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2971]» اس اثر کی سند ابراہیم تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11279، 11309]، [عبدالرزاق 19063]، [البيهقي 250/6]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده إلى إبراهيم صحيح
اسماعیل سے مروی ہے عامر (الشعبی) نے کہا: دادا کے معاملے میں اس پر عمل کرو جس پر (علماء) لوگوں نے اجماع کیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یعنی سیدنا زید رضی اللہ عنہ کا قول اپناؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عامر الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2972]» عامر الشعبی تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مالك فى الفرائض 2]، [ابن أبى شيبه 11257، 11316]، [عبدالرزاق 19042]
وضاحت: (تشریح احادیث 2960 سے 2963) ان تمام آثار سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی رائے معلوم ہوئی کہ باپ کی غیر موجودگی میں دادا کا حصہ ہے۔ دادا، پوتے، چچا، بھتیجے کی تصریح گرچہ قرآن پاک میں وارد نہیں ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حصص «أَلْحِقُوْا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ»[صحيح مسلم 4141] کے تحت مقرر فرما دیئے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [المحلى 384/9]، [فتح الباري 20/12]، [منهاج المسلم، ص: 679] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عامر الشعبي