عن عدي بن حاتم قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ارسلت كلبك فاذكر اسم الله فإن امسك عليك فادركته حيا فاذبحه وإن ادركته قد قتل ولم ياكل منه فكله وإن اكل فلا تاكل فإنما امسك على نفسه فإن وجدت مع كلبك كلبا غيره وقد قتل فلا تاكل فإنك لا تدري ايهما قتل. وإذا رميت بسهمك فاذكر اسم الله فإن غاب عنك يوما فلم تجد فيه إلا اثر سهمك فكل إن شئت وإن وجدته غريقا في الماء فلا تاكل» عَن عدِيِّ بنِ حاتِمٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ فَإِنْ أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَأَدْرَكْتَهُ حَيًّا فَاذْبَحْهُ وَإِنْ أَدْرَكْتَهُ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ فَكُلْهُ وَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ فَإِنْ وَجَدْتَ مَعَ كَلْبِكَ كَلْبًا غَيْرَهُ وَقَدْ قَتَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّهُمَا قَتَلَ. وَإِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ فَإِنْ غَابَ عَنْكَ يَوْمًا فَلَمْ تَجِدْ فِيهِ إِلَّا أَثَرَ سَهْمِكَ فَكُلْ إِنْ شِئْتَ وَإِنْ وَجَدْتَهُ غَرِيقًا فِي الْمَاءِ فَلَا تأكُلْ»
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جب تم اپنا کتا چھوڑو تو اللہ کا نام لے کر چھوڑو، اگر وہ تمہارے لیے پکڑ لے اور تم اسے زندہ پا لو تو اسے ذبح کرو، اگر تم اسے اس حال میں پاؤ کے اس نے (شکار کو) قتل کر دیا اور اس سے کھایا نہیں تو پھر اسے کھا لو، اور اگر اس نے کھا لیا ہے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے، اگر تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا دیکھو اور شکار کو مردہ پاؤ تو اسے مت کھاؤ کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ان دونوں میں سے کس نے قتل کیا، اور جب تم تیر چلاؤ تو اللہ کا نام لے کر چلاؤ پھر اگر وہ شکار تمہیں ایک روز بعد ملے اور تم اس میں صرف اپنے تیر ہی کا نشان دیکھو تو پھر اگر چاہو تو کھا لو، اور اگر تم اسے پانی میں ڈوبا ہوا پاؤ تو اسے مت کھاؤ۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (175) و مسلم (1929/6)»
وعنه قال: قلت: يا رسول الله إنا نرسل الكلاب المعلمة قال: «كل ما امسكن عليك» قلت: وإن قتلن؟ قال: «وإن قتلن» قلت: إنا نرمي بالمعراض. قال: «كل ما خزق وما اصاب بعرضه فقتله فإنه وقيذ فلا تاكل» وَعَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نُرْسِلُ الْكِلَابَ الْمُعَلَّمَةَ قَالَ: «كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ» قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ؟ قَالَ: «وَإِنْ قَتَلْنَ» قُلْتُ: إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ. قَالَ: «كُلُّ مَا خزق وَمَا أصَاب بعرضه فَقتله فَإِنَّهُ وقيذ فَلَا تَأْكُل»
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم (شکار کے لیے) سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو تمہارے لیے پکڑا ہے کھا لیں۔ “ میں نے عرض کیا، اگر وہ مار ڈالیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ وہ مار ڈالیں۔ “ میں نے عرض کیا: ہم معراض (پروں کے بغیر تیر) پھینکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ نوک کی طرف سے شکار میں گھس جائے تو کھا لیں اور اگر اسے چوڑائی والے حصے کی طرف سے لگے اور وہ قتل ہو جائے تو اسے مت کھائیں، کیونکہ وہ چوٹ لگنے سے مرا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5477) و مسلم (1/ 1929)»
وعن ابي ثعلبة الخشني قال: قلت: يا نبي الله إنا بارض قوم اهل كتاب افناكل في آنيتهم وبارض صيد اصيد بقوسي وبكلبي الذي ليس بمعلم وبكلبي المعلم فما يصلح؟ قال: «اما ذكرت من آنية اهل الكتاب فإن وجدتم غيرها فلا تاكلوا فيها وإن لم تجدوا فاغسلوها وكلوا فيها وما صدت بقوسك فذكرت اسم الله فكل وما صدت بكلبك المعلم فذكرت اسم الله فكل وما صدت بكلبك غير معلم فادركت ذكاته فكل» وَعَن أبي ثَعْلَبَة الْخُشَنِي قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ قوم أهل كتاب أَفَنَأْكَلُ فِي آنِيَتِهِمْ وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ وَبِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ فَمَا يصلح؟ قَالَ: «أما ذَكَرْتَ مِنْ آنِيَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ فَإِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَهَا فَلَا تَأْكُلُوا فِيهَا وَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فاغسلوها وَكُلُوا فِيهَا وَمَا صِدْتَ بِقَوْسِكَ فَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ غَيْرِ معلم فأدركت ذَكَاته فَكل»
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! ہم اہل کتاب کی سرزمین پر رہائش پذیر ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیا کریں، اور اسی سرزمین پر میں اپنی کمان اور اپنے غیر سدھائے ہوئے اور سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے شکار کرتا ہوں، تو میرے لیے کیا درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے جو اہل کتاب کے برتنوں کا ذکر کیا ہے تو اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن میسر آ جائیں تو پھر ان میں مت کھاؤ، اور اگر میسر نہ آئیں تو پھر انہیں دھو کر ان میں کھا لو۔ اور تم نے اپنی کمان سے جو شکار کیا ہے اگر تم نے اس پر اللہ کا نام ذکر کیا ہے تو کھا لو، اور تم نے جو اپنے سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کیا ہے اور اللہ کا نام ذکر کیا ہے تو کھا لو اور تم نے اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے سے جو شکار کیا ہے اگر اسے ذبح کر لو تو کھا لو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5478) و مسلم (8/ 1930)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا رميت بسهمك فغاب عنك فادركته فكل ما لم ينتن» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَغَابَ عَنْكَ فَأَدْرَكْتَهُ فَكُلْ مَا لَمْ يُنْتِنْ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنا تیر (شکار پر) پھینکا اور وہ (شکار) تیری نظروں سے اوجھل ہو گیا، پھر تم نے اسے پا لیا تو اگر وہ بدبودار نہیں ہوا تو اسے کھا سکتے ہو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1931/9)»
وعنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال في الذي يدرك صيده بعد ثلاث: «فكله ما لم ينتن» . رواه مسلم وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الَّذِي يُدْرِكُ صَيْدَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ: «فكله مَا لم ينتن» . رَوَاهُ مُسلم
ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں، جو تین روز بعد اپنا شکار پاتا ہے، فرمایا: ”اگر وہ بدبودار نہیں ہوا تو اسے کھا لے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1931/10)»
وعن عائشة قالت: قالوا: يا رسول الله إن هنا اقواما حديث عهدهم بشرك ياتوننا بلحمان لا ندري ايذكرون اسم الله عليها ام لا؟ قال: «اذكروا انتم اسم الله وكلوا» . رواه البخاري وَعَن عَائِشَة قَالَت: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هُنَا أَقْوَامًا حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِشِرْكٍ يَأْتُونَنَا بِلُحْمَانٍ لَا نَدْرِي أَيَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَمْ لَا؟ قَالَ: «اذْكُرُوا أَنْتُم اسمَ اللَّهِ وكلوا» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ آیا وہ اس پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کا نام لو اور کھاؤ۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2057)»
وعن ابي الطفيل قال: سئل علي: هل خصكم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء؟ فقال: ما خصنا بشيء لم يعم به الناس إلا ما في قراب سيفي هذا فاخرج صحيفة فيها: «لعن الله من ذبح لغير الله ولعن الله من سرق منار الارض وفي رواية من غير منار الارض ولعن الله من لعن والده ولعن الله من آوى محدثا» . رواه مسلم وَعَن أبي الطُّفَيْل قَالَ: سُئِلَ عَليّ: هَلْ خَصَّكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ فَقَالَ: مَا خَصَّنَا بِشَيْءٍ لَمْ يَعُمَّ بِهِ النَّاسَ إِلَّا مَا فِي قِرَابِ سَيْفِي هَذَا فَأَخْرَجَ صَحِيفَةً فِيهَا: «لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الْأَرْضِ وَفِي رِوَايَةٍ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوطفیل (عامر بن واثلہ) بیان کرتے ہیں، علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں کوئی خاص چیز عطا فرمائی؟ انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کوئی خاص ایسی چیز عطا نہیں فرمائی جو آپ نے دیگر لوگوں کو نہ بتائی ہو۔ البتہ یہ چیز ہے جو کہ میری تلوار کے نیام میں ہے، انہوں نے ایک صحیفہ نکالا اس میں درج تھا: ”غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر اللہ لعنت کرے، زمین کے نشان (حدود) چوری کرنے والے پر اللہ لعنت کرے۔ “ اور ایک روایت میں ہے: ”جس نے زمین کے نشانات (ملکیتی حدود) بدل ڈالے (اللہ اس پر لعنت فرمائے)”اپنے والد پر لعنت کرنے والے پر اللہ لعنت کرے اور بدعتی شخص کو پناہ دینے والے شخص پر اللہ لعنت کرے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1978/47)»
وعن رافع بن خديج قال: قلت: يا رسول الله إنا لاقوا العدو غدا وليست معنا مدى افنذبح بالقصب؟ قال: ما انهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وساحدثك عنه: اما السن فعظم واما الظفر فمدى الحبش واصبنا نهب إبل وغنم فند منها بعير فرماه رجل بسهم فحبسه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لهذه الإبل اوابد كاوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فافعلوا به هكذا» وَعَن رَافع بن خديج قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَاقُوا الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى أَفَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ؟ قَالَ: مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْهُ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشِ وَأَصَبْنَا نَهْبَ إِبِلٍ وَغَنَمٍ فَنَدَّ مِنْهَا بِعِيرٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَإِذَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا شَيْءٌ فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا»
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے ملاقات کرنے والے ہیں، جبکہ ہمارے پاس چھریاں نہیں، کیا ہم سر کنڈے کے ساتھ ذبح کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ، (جبکہ) دانت اور ناخن کے ساتھ ذبح کرنا درست نہیں، اور میں تمہیں اس کے متعلق تفصیلا بتاتا ہوں دانت ہڈی ہے، اور رہا ناخن تو وہ حبشیوں کی چھریاں ہیں۔ “(کفار پر حملہ کرنے کے بعد) ہم کو اونٹ اور بکریاں ملیں، ان میں سے ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا تو ایک آدمی نے اس پر ایک تیر چلایا اور اسے روک لیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان جانوروں میں بھی وحشی جانوروں کی طرح بھاگنے والے ہوتے ہیں، ان میں سے جو بے قابو ہو جائے تو تم اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2488) و مسلم (1968/20)»
وعن كعب بن مالك انه كان له غنم ترعى بسلع فابصرت جارية لنا بشاة من غنمنا موتا فكسرت حجرا فذبحتها به فسال النبي صلى الله عليه وسلم فامره باكلها. رواه البخاري وَعَن كعبِ بنِ مَالك أَنه كانَ لَهُ غَنَمٌ تُرْعَى بِسَلْعٍ فَأَبْصَرَتْ جَارِيَةٌ لَنَا بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِنَا مَوْتًا فَكَسَرَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأمره بأكلها. رَوَاهُ البُخَارِيّ
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی بکریاں تھی جو سلع پہاڑ پر چر رہی تھیں، ہماری ایک لونڈی نے بکریوں میں سے ایک بکری کو مرنے کے قریب دیکھا تو اس نے ایک پتھر توڑا اور اس کے ساتھ اسے ذبح کر دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے انہیں اس کے کھانے کا حکم فرمایا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3304)»
وعن شداد بن اوس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله تبارك وتعالى كتب الإحسان على كل شيء فإذا قتلتم فاحسنوا القتلة وإذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته وليرح ذبيحته» . رواه مسلم وَعَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ» . رَوَاهُ مُسلم
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کر دیا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو۔ جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تم میں سے ہر ایک اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1955/57)»