الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
قربانی کے بیان میں
1. باب السُّنَّةِ في الأُضْحِيَّةِ:
1. قربانی کرنے کا سنت طریقہ
حدیث نمبر: 1984
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: "ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين املحين اقرنين، ويسمي ويكبر، لقد رايته يذبحهما بيده واضعا على صفاحهما قدمه"، قلت: انت سمعته؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيُسَمِّي وَيُكَبِّرُ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ وَاضِعًا عَلَى صِفَاحِهِمَا قَدَمَهُ"، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سرمگیں، سینگوں والے مینڈھے ذبح کئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذبح کرتے وقت بسم الله و الله اکبر کہتے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مینڈھوں کو اپنے ہاتھ سے ان کے پٹھ پر اپنا پیر رکھ کر ذبح کرتے ہوئے دیکھا۔ راوی نے کہا: میں نے دریافت کیا کہ تم نے ان سے سنا تھا؟ کہا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1988]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1551، 5565]، [مسلم 1966]، [أبوداؤد 2793]، [ترمذي 1494]، [نسائي 4399]، [ابن ماجه 3120]، [أبويعلی 2806]، [ابن حبان 5900]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1985
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي عياش، عن جابر بن عبد الله، قال: ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين في يوم العيد، فقال حين وجههما:"إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والارض حنيفا وما انا من المشركين. إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين، لا شريك له، وبذلك امرت وانا اول المسلمين. اللهم إن هذا منك ولك، عن محمد وامته"، ثم سمى الله وكبر وذبح.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ فِي يَوْمِ الْعِيدِ، فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ. إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ"، ثُمَّ سَمَّى اللَّهَ وَكَبَّرَ وَذَبَحَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلہ کی طرف کیا تو یہ آیت پڑھی: «إِنِّيْ وَجَّهْتُ ...... الْمُسْلِمِيْنَ» میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور میں سیدھا مسلمان ہوں، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہانوں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اس کا حکم ہوا اور میں سب سے پہلے اس کے تابعداروں میں سے ہوں۔ پھر یہ دعا پڑھی: «اَللّٰهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهٖ» یعنی: اے الله یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے (تو نے ہی مجھے عطا کی) اور صرف تیرے لئے ہے محمد اور اس کی امت کی طرف سے۔ پھر «بسم الله الله اكبر» کہا اور ذبح کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1989]»
اس روایت کی سند تو ضعیف ہے لیکن اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 1977]، [أبوداؤد 2795]، [ترمذي 1521،] [ابن ماجه 3121]، [أبويعلی 1792]، [مجمع الزوائد 6047]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1983 سے 1985)
قربانی کرنا سنّت ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، خلوصِ وللّٰہیت سے کی جائے تو خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، اس کے لئے صاحبِ نصاب ہونا ضروری نہیں، استطاعت ہو تو قربانی کرے نہیں ہے تو ادھار لے کر قربانی کرنا درست نہیں، قربانی بکرا، مینڈھا، گائے اور اونٹ کی ہو سکتی ہے، ایک بکرا یا ایک مینڈھا ایک فیملی کی طرف سے کافی ہے، گائے اور اونٹ میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مینڈھے کی قربانی ثابت ہے، گرچہ ایک مینڈھا کافی تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قربانی اپنی اور امّت کی طرف سے کی اور ایک اہل و عیال کی طرف سے، قربانی کرتے وقت مینڈھے کو قبلہ رو لٹایا، اس پر پیر رکھا، اور مذکورہ بالا آیت و دعا پڑھی اور پھر دست ڈالا قربانی کا، یہی طریقہ ہے، اسی طرح قربانی کرنا سنّت ہے، اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، (آمین)۔
قربانی کے دیگر مسائل آگے آرہے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح بشواهده
2. باب مَا يُسْتَدَلُّ مِنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الأُضْحِيَّةَ لَيْسَ بِوَاجِبٍ:
2. قربانی کرنا واجب نہیں ہے
حدیث نمبر: 1986
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني خالد يعني: ابن يزيد، حدثني سعيد يعني: ابن ابي هلال، عن عمرو بن مسلم، اخبرني ابن المسيب، ان ام سلمة اخبرته، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه، قال: "من اراد ان يضحي، فلا يقلم اظفاره، ولا يحلق شيئا من شعره في العشر الاول من ذي الحجة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي خَالِدٌ يَعْنِي: ابْنَ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ يَعْنِي: ابْنَ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: "مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يُقَلِّمْ أَظْفَارَهُ، وَلَا يَحْلِقْ شَيْئًا مِنْ شَعْرِهِ فِي الْعَشْرِ الْأُوَلِ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ".
سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو وہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں نہ اپنے ناخون کاٹے نہ بال منڈوائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1990]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1977]، [أبوداؤد 2791]، [ترمذي 1523]، [نسائي 4373]، [ابن ماجه 3149، 3150]، [أبويعلی 6910]، [ابن حبان 5897]، [الحميدي 295]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 1987
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، حدثني عبد الرحمن بن حميد، عن سعيد بن المسيب، عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا دخلت العشر، واراد احدكم ان يضحي، فلا يمس من شعره ولا اظفاره شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا دَخَلَتْ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا أَظْفَارِهِ شَيْئًا".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوا، اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو وہ اپنے بال نہ کاٹے اور نہ ناخون کاٹے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1991]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1985 سے 1987)
ان احادیثِ صحیحہ کے الفاظ «مَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ» سے یہ مسألہ نکلا کہ جو قربانی نہ کرنا چاہے اس پر کوئی پابندی اور گناہ نہیں، غالباً امام دارمی رحمہ اللہ کا یہی مقصود باب اور احادیث الباب سے ہے۔
ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کرنی ہو تو صاحبِ قربانی ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن کاٹے، اور یہ حکم استحباباً ہے، بعض فقہائے کرام کے نزدیک قربانی کرنے والے پر بال و ناخن کاٹنا حرام ہے۔
پہلا حکم زیادہ صحیح ہے اور مذکور بالا احادیث میں نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں، نیز یہ کہ حکم صاحبِ قربانی کے لئے ہے اہل و عیال پر یہ پابندی ضروری نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب مَا لاَ يَجُوزُ في الأَضَاحِيِّ:
3. قربانی کے لئے جو جانور جائز نہیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1988
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن عمرو بن الحارث، عن عبيد بن فيروز، عن البراء بن عازب، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يتقى من الضحايا؟ قال: "العوراء البين عورها، والعرجاء البين ظلعها، والمريضة البين مرضها، والعجفاء التي لا تنقي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُتَّقَى مِنْ الضَّحَايَا؟ قَالَ: "الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی کے لئے کیسے جانور سے پرہیز کیا جائے؟ فرمایا: ایک تو کانا جانور جس کانا پن ظاہر ہو، (دوسرے) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، (تیسرے) ایسا بیمار جانور جس کی بیماری ظاہر و بائن ہو اور (چوتھے) ایک دبلی پتلی قربانی جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1992]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطأ فى كتاب الضحايا 1]، [أبوداؤد 2802]، [ترمذي 1497]، [نسائي 4381]، [ابن ماجه 3144]، [ابن حبان 5919]، [الموارد 1046]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1989
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن سليمان بن عبد الرحمن، عن عبيد بن فيروز، قال: سالت البراء عما نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الاضاحي , فقال: "اربع لا يجزئن: العوراء البين عورها، والعرجاء البين ظلعها، والمريضة البين مرضها، والكسير التي لا تنقي". قال: قلت للبراء: فإني اكره ان يكون في السن نقص، وفي الاذن نقص، وفي القرن نقص، قال: فما كرهت فدعه، ولا تحرمه على احد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ عَمَّا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْأَضَاحِيِّ , فَقَالَ: "أَرْبَعٌ لَا يُجْزِئْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تُنْقِي". قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَاءِ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي السِّنِّ نَقْصٌ، وَفِي الْأُذُنِ نَقْصٌ، وَفِي الْقَرْنِ نَقْصٌ، قَالَ: فَمَا كَرِهْتَ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
عبید بن فیروز نے کہا: میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قربانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن چیزوں سے روکا؟ جواب دیا کہ چار قسم کی قربانی کافی نہ ہو گی، ایک تو ایسی کانی جس کا کانا پن ظاہر ہو، دوسرے ایسی لنگڑی جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، تیسرے ایسی بیمار جس کا مرض ظاہر ہو، چوتھے ایسی بوڑھی کہ ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔ عبید نے کہا: میں نے سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ دانت میں خامی، کان میں نقص یا سینگ میں خرابی ہو؟ فرمایا: جو پسند نہ ہو اسے چھوڑ دو اور کسی اور پر اسے حرام نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1993]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1987 سے 1989)
یعنی تھوڑا سا نقص و خرابی ہو اور تمہارا دل مطمئن نہ ہو تو اسے چھوڑ دو، لیکن دوسروں کے لئے اس کو حرام نہ گردانو۔
حدیث کا لفظ بھی «الْبَيِّنُ» کے ساتھ ہے، یعنی جو نقص و خرابی بالکل ظاہر و بائن ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1990
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت حجية بن عدي، قال: سمعت عليا وساله رجل، فقال: يا امير المؤمنين، البقرة? قال: عن سبعة، قلت: القرن؟ قال: لا يضرك. قال: قلت: العرج؟ قال: إذا بلغت المنسك. ثم قال:"امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين والاذن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حُجَيَّةَ بْنَ عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، الْبَقَرَةُ? قَالَ: عَنْ سَبْعَةٍ، قُلْتُ: الْقَرْنُ؟ قَالَ: لَا يَضُرُّكَ. قَالَ: قُلْتُ: الْعَرَجُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسَكَ. ثُمَّ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ".
حجیہ بن عدی نے کہا: میں نے سنا ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: اے امیر المومنین! گائے کتنے افراد کی طرف سے؟ فرمایا: سات افراد کی طرف سے، میں نے عرض کیا: سینگ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فرمایا: کوئی برائی نہیں، عرض کیا: اور لنگڑا پن؟ فرمایا: قربان گاہ تک پہنچ جائے تو کوئی حرج نہیں، (یعنی جو چل سکتا ہو اس میں کوئی حرج نہیں)، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کوحکم دیا تھا کہ آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1994]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1498]، [نسائي 4388، الطرف الأخير فقط]، [أبويعلی 333]، [ابن حبان 5920]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1989)
اس حدیث کا آخری جملہ نسائی اور ترمذی میں مذکور ہے طرفِ اوّل مذکور نہیں، اس روایت کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک کان اور آنکھ کی خرابی ہی قربانی کے موانع میں سے ہے اور سینگ کا ٹوٹا ہونا یا لنگڑے پن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیک کرنے کا حکم نہیں دیا، (واللہ اعلم)۔
لیکن سینگ اور لنگڑا پن بھی نقص ہے جو قربانی کے جانور میں نہیں ہونا چاہئے، جیسا کہ اگلی حدیث میں صراحتاً مذکور ہے۔
ہاں قدرتی طور پر سینگ نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1991
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن شريح بن النعمان الصائدي، عن علي رضي الله عنه قال:"امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين والاذن، وان لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا خرقاء، ولا شرقاء، فالمقابلة: ما قطع طرف اذنها، والمدابرة: ما قطع من جانب الاذن، والخرقاء: المثقوبة، والشرقاء: المشقوقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا خَرْقَاءَ، وَلَا شَرْقَاءَ، فَالْمُقَابَلَةُ: مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا، وَالْمُدَابَرَةُ: مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ، وَالْخَرْقَاءُ: الْمَثْقُوبَةُ، وَالشَّرْقَاءُ: الْمَشْقُوقَةُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (قربانی) کے کان اور آنکھ کو خوب دیکھ لیں (یعنی ان میں کوئی نقص نہ ہو) اور مقابلہ، مدابرة، خرقاء اور شرقاء کی قربانی نہ کریں۔ مقابلہ وہ جانور جس کا کان کاٹ دیا گیا ہو، مدابرہ وہ ہے کہ کان کی جانب سے کچھ کٹا ہوا ہو، اور خرقاء وہ ہے جس کا کان چھدا ہوا ہو، اور شرقاء جس کا کان چرا ہوا ہو۔ (یہ سب کان کے نقص ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قربانی درست نہیں)۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان، [مكتبه الشامله نمبر: 1995]»
اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 2804]، [ترمذي 1498]، [نسائي 4384]، [ابن ماجه 3142]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1990)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ لنگڑی، کن کٹی اور ٹوٹے سینگ والی، مریل، بوڑھی کی قربانی درست نہیں، مذکورہ علل و خرابیاں قربانی کے جانور کو عیب دار بنا دیتی ہیں، اس لئے قربانی ایسے جانور کی کرنی چاہئے جس میں مذکور بالا عیوب نہ ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات فقد قيل: إن أبا إسحاق لم يسمع شريح بن النعمان
4. باب مَا يُجْزِئُ مِنَ الضَّحَايَا:
4. قربانی کے لئے کتنی عمر کا جانور کافی ہے
حدیث نمبر: 1992
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام، عن يحيى، عن بعجة الجهني، عن عقبة بن عامر الجهني، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحايا بين اصحابه فاصابني جذع، فقلت: يا رسول الله، إنها صارت لي جذعة، فقال:"ضح به".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بَعْجَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَأَصَابَنِي جَذَعٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا صَارَتْ لِي جَذَعَةً، فَقَالَ:"ضَحِّ بِهِ".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے تو میرے حصے میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا؟ فرمایا: اسی کی قربانی کر دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1996]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5547]، [مسلم 1965]، [ترمذي 1500]، [نسائي 4392]، [أبويعلی 1758]، [ابن حبان 5898]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1993
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا الليث، حدثني يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر، قال: اعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم غنما اقسمها على اصحابه، فقسمتها وبقي منها عتود، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"ضح به". قال ابو محمد: العتود: الجذع من المعز.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا أَقْسِمُهَا عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَسَمْتُهَا وَبَقِيَ مِنْهَا عَتُودٌ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"ضَحِّ بِهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْعَتُودُ: الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ.
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے (قربانی کی) بکریاں عطا کیں، چنانچہ میں نے انہیں تقسیم کر دیا، ان میں سے ایک سال سے کم کا ایک بچہ بچا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کی قربانی کر دو۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «عتود» بکری کے بچے کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1997]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 5555، 4300]، [ابن ماجه 3138]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1991 سے 1993)
قربانی کے لئے بکرا دانتا ہوا مسنۃ ہونا چاہئے، چھوٹے بچے کی قربانی جائز نہیں، پہلی حدیث میں جذع کا لفظ ہے اس کی تشریح عتود سے ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بکری کا بچہ ایک سال کا ہونا چاہئے، کیونکہ روایتِ صحیحہ میں ہے کہ یہ حکم صرف سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے لئے تھا۔
جذع عربی میں ایسے جانور کو کہتے ہیں جو جوان و قوی ہو گیا ہو اس لئے پانچ سال کے اونٹ کو جذع کہا جاتا ہے، گائے اور بکری کے اس بچے کو جذع کہتے ہیں جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں لگ جائے، اور بھیڑ میں جذع وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو یا کچھ کم، اور گائے میں بعض نے کہا جذع وہ ہے جو تیسرے سال میں لگ جائے۔
بعض علماء نے بھیڑ کے چھ مہینے کے بچے کی قربانی کی اجازت دی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ بھیڑ بکری ہر ایک میں دانتا ہوا جانور ہو یا ایک سال کا ہو گیا ہو۔
کیونکہ حدیث ہے: «لَا تَذْبَحُوْا إِلَّا مُسِنَّةً.» تم قربانی کرو دنتے ہوئے جانور کی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.