الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وصیت کے مسائل
1. باب مَنِ اسْتَحَبَّ الْوَصِيَّةَ:
1. وصیت کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 3208
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، اخبرنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ماحق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله شيء يوصي فيه، إلا ووصيته مكتوبة عنده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَاحَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کے پاس وصیت کی کوئی چیز ہو اسے حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی گزارے اور اس کے پاس اس کی وصیت لکھی نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3219]»
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2738]، [مسلم 1627]، [أبوداؤد 2862]، [أبويعلی 5512]، [ابن حبان 6024]، [الحميدي 714]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3206 سے 3208)
یعنی بنا وصیت کے دو رات گذارنا بھی مناسب نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، ہمیشہ وصیت لکھ کر رکھتا ہوں۔
قریب الموت آدمی اپنے مرنے کے بعد کسی چیز کی دیکھ بھال، یا اپنے مال کو نیک کام میں خرچ کرنے کا فیصلہ کرے، اور کسی کو اس کا حکم دے، تو اس کو وصیت کہتے ہیں، اور وصیت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک تو یہ کہ مرنے والے شخص پر قرض ہو یا کسی کی امانت ہو، دوسرے وہ کسی قرابت دار کے لئے یا مسجد مدرسے اور تیموں کے لئے وصیت کرے اس کی دولت یا جائداد میں سے اس نیک کام میں خرچ کیا جائے، تو ایسا کرنا مستحب ہے، لیکن یہ وصیت ایک ثلث یا اس سے کم مال میں ہوگی، نیز وصیت کے احکام و مسائل ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
قرآن پاک میں ہے: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا وصی (گواہ) ہونا مناسب ہے جب کہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو، وہ دو شخص ایسے ہوں جو دین دار ہوں۔
[المائده: 106] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 3209
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان، حدثنا ابو الاشهب، حدثنا الحسن، قال: "المؤمن لا ياكل في كل بطنه، ولا تزال وصيته تحت جنبه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: "الْمُؤْمِنُ لَا يَأْكُلُ فِي كُلِّ بَطْنِهِ، وَلَا تَزَالُ وَصِيَّتُهُ تَحْتَ جَنْبِهِ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: مومن پورا پیٹ بھر کے نہیں کھاتا ہے، اور اس کی وصیت ہمیشہ اس کے پہلو میں رہتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3220]»
اس روایت کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے اور انہیں پر موقوف ہے۔ ابوالاشہب کا نام جعفر بن حبان ہے، اس اثر کو کسی اور محدث نے روایت نہیں کیا۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 3208)
احادیث میں ہے: «اَلْمُؤمِنُ يَأْكُلُ فِيْ مِعًي وَاحِدًا وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِيْ سَبْعَةِ أَمْعَاءِ.» غالباً سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
2. باب فَضْلِ الْوَصِيَّةِ:
2. وصیت کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3210
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن داود بن ابي هند، عن القاسم بن عمر، قال:"قال لي ثمامة بن حزن: ما فعل ابوك؟ قلت: مات، قال: فهل اوصى؟ فإنه كان يقال: إذا اوصى الرجل، كانت وصيته تماما لما ضيع من زكاته". قال ابو محمد، وقال غيره: القاسم بن عمرو.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:"قَالَ لِي ثُمَامَةُ بْنُ حَزْنٍ: مَا فَعَلَ أَبُوكَ؟ قُلْتُ: مَاتَ، قَالَ: فَهَلْ أَوْصَى؟ فَإِنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ، كَانَتْ وَصِيَّتُهُ تَمَامًا لِمَا ضَيَّعَ مِنْ زَكَاتِهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد، وقال غَيْرُهُ: الْقَاسِمُ بْنُ عَمْرٍو.
قاسم بن عمر سے مروی ہے کہ ثمامہ بن حزن نے مجھ سے کہا: تمہارے والد نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا: وہ تو انتقال کر گئے، انہوں نے کہا: کیا انہوں نے وصیت کی؟ کیوں کہ یہ کہا جاتا تھا جب آدمی وصیت کر جائے تو اس کی وصیت زکاة میں جو اس سے کمی ہوئی اس کو پورا کر دیتی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: دوسروں نے قاسم بن عمرو کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى ثمامة، [مكتبه الشامله نمبر: 3221]»
اس روایت کی سند ثمامہ تک جید ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 19082]، [عبدالرزاق 16330]، [ابن منصور 346]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى ثمامة
حدیث نمبر: 3211
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا داود بن ابي هند، عن الشعبي، قال: كان يقال: "من اوصى بوصية فلم يجر، ولم يحف، كان له من الاجر مثل ما ان لو تصدق به في حياته".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: "مَنْ أَوْصَى بِوَصِيَّةٍ فَلَمْ يَجُرْ، وَلَمْ يَحِفْ، كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ مَا أَنْ لَوْ تَصَدَّقَ بِهِ فِي حَيَاتِهِ".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: یہ کہا جا تا ہے کہ جو کوئی ایسی وصیت کرے جس میں ظلم و زیادتی نہ ہو تو اس کے لئے اتنا ہی اجر ہے جیسے اس نے اپنی زندگی میں صدقہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3222]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10979]، [عبدالرزاق 16329]، [ابن منصور 245]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
حدیث نمبر: 3212
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن ابي يونس، عن قزعة، قال: قيل لهرم بن حيان: اوصه، قال: "اوصيكم بالآيات الاواخر من سورة النحل، وقرا ابن حيان: ادع إلى سبيل ربك بالحكمة إلى قوله: والذين هم محسنون سورة النحل آية 125 - 128".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي يُونُسَ، عَنْ قَزَعَةَ، قَالَ: قِيلَ لِهَرِمِ بْنِ حَيَّانَ: أَوْصِهْ، قَالَ: "أُوصِيكُمْ بِالْآيَاتِ الْأَوَاخِرِ مِنْ سُورَةِ النَّحْلِ، وَقَرَأَ ابْنُ حَيَّانَ: ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ إِلَى قَوْلِهِ: وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ سورة النحل آية 125 - 128".
قزعہ سے مروی ہے، ہرم بن حیان سے کہا گیا وصیت کیجئے، تو انہوں نے کہا: میں تمہیں سورہ نحل کی آخری آیات (پڑھنے) کی وصیت کرتا ہوں، اور ابن حیان نے «ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ» سے «وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ» تک یہ آیات پڑھیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3223]»
اس اثر کی سند ہرم بن حیان تک صحیح ہے، بعض نسخ میں راوی ابوقزعہ ہیں جن کا نام: سوید بن حجیر ہے، اور ابویونس کا نام حاتم بن ابی صغیرہ ہے۔ دیکھئے: [أبونعيم 121/2]، [ابن أبى شيبه 17283]، [أحمد فى الزهد ص: 231]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3209 سے 3212)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے، یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راه یافتہ لوگوں سے بھی بخوبی واقف ہے، اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو، اور اگر صبر کر لو تو بے شک صابروں کے لئے یہ ہی بہتر ہے۔
آپ صبر کریں، بغیر توفیقِ الٰہی آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں، اور جو مکر و فریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے دل برداشتہ نہ ہوں، یقین جانو کہ الله تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
3. باب مَنْ لَمْ يُوصِ:
3. جو کوئی وصیت نہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 3213
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف اليامي، قال: سالت عبد الله بن ابي اوفى: اوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا، قلت: فكيف كتب على الناس الوصية او: امروا بالوصية؟ فقال: اوصى بكتاب الله. وقال هزيل بن شرحبيل: ابو بكر كان يتامر على وصي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ود ابو بكر انه وجد من رسول الله صلى الله عليه وسلم عهدا، فخزم انفه بخزامة ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ الْيَامِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، قُلْت: فَكَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ: أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ؟ فَقَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ. وقَالَ هُزَيْلُ بْنُ شُرَحْبِيلَ: أَبُو بَكْرٍ كَانَ يَتَأَمَّرُ عَلَى وَصِيِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَّ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ وَجَدَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا، فَخَزَمَ أَنْفَهُ بِخِزَامَةٍ ذلِكَ.
طلحہ بن مصرف الیامی نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر کیسے لوگوں پر وصیت لازم ہوئی؟ یا ان کو وصیت کا حکم کیوں دیا گیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ: یہ تو کتاب اللہ القرآن سے (واضح) ہے، غالباً اشاره «إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ . . . . . .» [بقره: 180/2] کی طرف طرف ہے۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کو پورا کرنا ایسے پسند کرتے تھے جیسے تابعدار اونٹنی نکیل ڈلوا کر تابعداری کرتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 3224]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2740]، [مسلم 1634]، [ابن ماجه 2696]، [ابن حبان 6023]، [الحميدي 739، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3212)
ہزیل رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی ہوتی تو اس کی سب سے زیادہ پیروی کرنے والے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، ان سے یہ گمان کیا ہی نہیں جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے کہا ہو اور وہ خود خلیفہ بن بیٹھیں، تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں خلافت کے لئے جھگڑا چل رہا تھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو میں سے کسی کو منتخب کر لو سیدنا عمر یا سیدنا ابوعبیده رضی اللہ عنہما کو، انہوں نے اپنا نام ہی نہیں لیا، سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ پر یہ بہتان ہے کہ انہوں نے خلافت غصب کر لی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ یا حکم ہوتا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانا ہے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دل و جان سے قبول کرنے اور بلا مشورہ ہی ان کو خلیفہ بنانے میں پیش پیش ہوتے۔
«(سبحانك هٰذا بهتان عظيم)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وموصول بالإسناد السابق
حدیث نمبر: 3214
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد، انبانا همام، عن قتادة:"كتب عليكم إذا حضر احدكم الموت إن ترك خيرا الوصية للوالدين والاقربين بالمعروف حقا على المتقين سورة البقرة آية 180، قال: "الخير: المال، كان يقال: الفا فما فوق ذلك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أنبأنا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ:"كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ سورة البقرة آية 180، قَالَ: "الْخَيْرُ: الْمَالُ، كَانَ يُقَالُ: أَلْفًا فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ".
قتادہ رحمہ اللہ سے «إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ. . . . . .» [بقره: 180/2] کے بارے میں مروی ہے کہ اس آیت میں «خَيْرًا» سے مراد مال ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ہزار یا اس سے زیادہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3225]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ یزید: ابن ہارون، اور ہمام: ابن یحییٰ ہیں۔ د یکھئے: [ابن أبى شيبه 10991]، [تفسير طبري 121/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3213)
یعنی آیتِ مذکورہ میں ہے: جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت قریب آئے اور اس کے پاس مال ہو تو والدین یا عزیز و اقارب کے لئے مناسب وصیت کرنا لازمی ہے، یہ مؤمنین پر واجب ہے۔
تو اس آیت میں خیراً سے مراد مال ہے جتنا بھی ہو۔
ان احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کے پاس مال و دولت ہے تو وصیت ضرور کرنی چاہیے، اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ اچھا سلوک کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کے احسان سے فائدہ اٹھائیں اور دعائیں دیں۔
اوپر حدیث میں گذرا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی، اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت نہیں کی، اس سے مراد مال کی وصیت ہے، کیوں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث میں ہے کہ پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی درہم و دینار چھوڑا ہی نہیں جس کی وصیت کرتے، البتہ دینی امور سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد وصیتیں کی ہیں، جیسے: نماز کا خیال رکھنا، اور غلام و لونڈی، «اِتَّقُوْا الدُّنْيَا وَالتَّقُوْا النِّسَاءَ» دنیا سے بچنا اور عورتوں سے بچ کے رہنا، میری قبر کو صنم نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے، کتاب و سنّت کو مضبوطی سے تھامے رہنا، گمراہ نہ ہو گے، وغیرہ ذلک۔
اس سے معلوم ہوا کہ اولاد اور اہلِ خانہ کو دینی امور میں وصیت کرنا چاہیے۔
کچھ وصیتوں کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب مَا يُسْتَحَبُّ بِالْوَصِيَّةِ مِنَ التَّشَهُّدِ وَالْكَلاَمِ:
4. وصیت نامے کے الفاظ اور شہادت کا بیان
حدیث نمبر: 3215
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابن عون، عن محمد بن سيرين:"انه اوصى ذكر ما اوصى به، او هذا ذكر ما اوصى به محمد بن ابي عمرة بنيه واهل بيته: فاتقوا الله واصلحوا ذات بينكم واطيعوا الله ورسوله إن كنتم مؤمنين سورة الانفال آية 1، واوصاهم بما اوصى به إبراهيم بنيه، ويعقوب: يا بني إن الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة البقرة آية 132، واوصاهم ان لا يرغبوا ان يكونوا موالي الانصار وإخوانهم في الدين، وان العفة والصدق خير واتقى من الزنا والكذب، إن حدث به حدث في مرضي هذا قبل ان اغير وصيتي هذه، ثم ذكر حاجته".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ:"أَنَّهُ أَوْصَى ذِكْرُ مَا أَوْصَى بِهِ، أَوْ هَذَا ذِكْرُ مَا أَوْصَى بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ بَنِيهِ وَأَهْلَ بَيْتِهِ: فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ سورة الأنفال آية 1، وَأَوْصَاهُمْ بِمَا أَوْصَى بِهِ إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ، وَيَعْقُوبُ: يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة البقرة آية 132، وَأَوْصَاهُمْ أَنْ لَا يَرْغَبُوا أَنْ يَكُونُوا مَوَالِيَ الْأَنْصَارِ وَإِخْوَانَهُمْ فِي الدِّينِ، وَأَنَّ الْعِفَّةَ وَالصِّدْقَ خَيْرٌ وَأَتْقَى مِنْ الزِّنَا وَالْكَذِبِ، إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ فِي مَرَضِي هَذَا قَبْلَ أَنْ أُغَيِّرَ وَصِيَّتِي هَذِهِ، ثُمَّ ذَكَرَ حَاجَتَهُ".
عبداللہ بن عون نے خبر دی کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے وصیت کی اور لکھا: یہ اس وصیت کا ذکر ہے جو انہوں نے لکھی ہے، یا یہ لکھا یہ محمد بن سیرین (ابوبکر بن ابی عمرہ) کی وصیت کا ذکر ہے ان کے بیٹے اور گھر والوں کے لئے: تم اللہ سے ڈرو، اور باہمی تعلقات کی اصلاح کرو، اور الله تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو [ترجمه: سوره الانفال: 1/8] ، پھر ان کو وصیت کی جو ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں اور یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی: اے میرے بیٹو! الله تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو منتخب فرمایا ہے، خبردار تم مسلمان ہو کر ہی مرنا [البقره 122/2] ، اور ان کو وصیت کی کہ انصار اور اپنے دینی بھائیوں سے بے رغبتی نہ برتیں، اور یہ کہ عفت و سچائی زنا کاری و جھوٹ سے بہتر اور پاکیزہ ہے، اگر میری اس بیماری کی وجہ سے کوئی حادثہ ہو جائے اور اس وصیت میں رد و بدل نہ کروں تو ...... اس کے بعد انہوں نے وصیت میں ضروری باتیں تحریر کیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى محمد بن سيرين، [مكتبه الشامله نمبر: 3226]»
اس اثر کی سند محمد بن سیرین رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11078]، [البيهقي 287/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى محمد بن سيرين
حدیث نمبر: 3216
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو بكر، حدثنا هشام بن حسان، عن ابن سيرين، عن انس، قال:"هكذا كانوا يوصون: هذا ما اوصى به فلان بن فلان، انه يشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، وان الساعة آتية لا ريب فيها، وان الله يبعث من في القبور، واوصى من ترك بعده من اهله ان يتقوا الله ويصلحوا ذات بينهم، وان يطيعوا الله ورسوله إن كانوا مؤمنين، واوصاهم بما اوصى به إبراهيم بنيه ويعقوب: يا بني إن الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة البقرة آية 132، واوصى إن حدث به حدث من وجعه هذا، ان حاجته كذا وكذا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:"هَكَذَا كَانُوا يُوصُونَ: هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، أَنَّهُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا، وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ، وَأَوْصَى مَنْ تَرَكَ بَعْدَهُ مِنْ أَهْلِهِ أَنْ يَتَّقُوا اللَّهَ وَيُصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِهِمْ، وَأَنْ يُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ، وَأَوْصَاهُمْ بِمَا أَوْصَى بِهِ إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ: يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة البقرة آية 132، وَأَوْصَى إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، أَنَّ حَاجَتَهُ كَذَا وَكَذَا".
ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وصیت اس طرح کرتے تھے: فلاں بن فلاں کی یہ وصیت ہے کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ جو قبروں میں ہیں انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، اور اپنے بعد رہ جانے والے اہل و عیال کو وہ وصیت کرتا کہ وہ اللہ سے ڈریں، اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کریں، اور اگر وہ مومن ہیں تو الله و اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کریں، اور وہ ویسی ہی وصیت کرتا جیسی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب علیہ السلام نے وصیت کی: اے میرے بیٹو! الله تعالیٰ نے تمہارے لئے دین (اسلام) کو منتخب کیا ہے لہٰذا تم مسلمان ہو کر ہی مرنا، پھر یہ وصیت کرتا کہ اس مرض و بیماری میں کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس کی وصیت اس طرح ہے ......۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش ولكنه لم ينفرد به بل توبع عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3227]»
اس اثر کی سند ابوبکر بن عياش کی وجہ سے حسن ہے۔ دیگر طرق سے صحیح کے درجے میں ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11078]، [عبدالرزاق 16319]، [ابن منصور 326]، [دارقطني 154/4]، [البيهقي 287/6]، [كشف الأستار 1375]، [مجمع الزوائد 7176]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش ولكنه لم ينفرد به بل توبع عليه
حدیث نمبر: 3217
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا الحكم بن المبارك، اخبرنا الوليد، عن حفص بن غيلان، عن مكحول حين اوصى، قال:"نشهد هذا فاشهد به: نشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله، ويؤمن بالله، ويكفر بالطاغوت على ذلك يحيا إن شاء الله، ويموت، ويبعث، واوصى فيما رزقه الله فيما ترك إن حدث به حدث وهو كذا وكذا، إن لم يغير شيئا مما في هذه الوصية".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غَيْلَانَ، عَنْ مَكْحُولٍ حِينَ أَوْصَى، قَالَ:"نَشَهُّدُ هَذَا فَاشْهَدْ بِهِ: نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَيُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَيَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ عَلَى ذَلِكَ يَحْيَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيَمُوتُ، وَيُبْعَثُ، وَأَوْصَى فِيمَا رَزَقَهُ اللَّهُ فِيمَا تَرَكَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ وَهُوَ كَذَا وَكَذَا، إِنْ لَمْ يُغَيِّرْ شَيْئًا مِمَّا فِي هَذِهِ الْوَصِيَّةِ".
حفص بن غیلان سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ نے جب وصیت کی تو کہا: ہم اس کی شہادت دیتے ہیں اس کے گواہ رہو، اللہ کے سوا کوئی معبو نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور جو (بندہ) اللہ پر ایمان رکھتا ہے، بتوں کا انکار کرتا ہے، اسی پر ان شاء الله وہ مرے گا اور اسی پر اٹھایا جائے گا۔ اور انہوں نے اللہ کے دیئے ہوئے ترکے کے بارے میں وصیت کی: اگر ان کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس طرح کیا جائے اگر اس میں رد و بدل نہ کریں (یعنی مرنے سے پہلے وہ خود رد و بدل نہ کریں تو یہ وصیت قابل عمل ہے)۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3228]»
ولید بن مسلم کے عنعنہ کے علاوہ اور کوئی علت اس اثر میں نہیں ہے اور وہ مدلس ہیں، باقی رجال ثقہ ہیں۔ «وانفرد به الدارمي» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.