الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
The Book on Government
حدیث نمبر: 4711
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، قالا: حدثنا حاتم وهو ابن إسماعيل ، عن المهاجر بن مسمار ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، قال: كتبت إلى جابر بن سمرة مع غلامي نافع، ان اخبرني بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فكتب إلي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم جمعة عشية رجم الاسلمي، يقول: " لا يزال الدين قائما حتى تقوم الساعة او يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش، وسمعته، يقول: عصيبة من المسلمين يفتتحون البيت الابيض، بيت كسرى او آل كسرى، وسمعته، يقول: إن بين يدي الساعة كذابين فاحذروهم، وسمعته، يقول: إذا اعطى الله احدكم خيرا، فليبدا بنفسه واهل بيته، وسمعته، يقول: انا الفرط على الحوض "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ مَعَ غُلَامِي نَافِعٍ، أَنْ أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جُمُعَةٍ عَشِيَّةَ رُجِمَ الْأَسْلَمِيُّ، يَقُولُ: " لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ، وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: عُصَيْبَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَفْتَتِحُونَ الْبَيْتَ الْأَبْيَضَ، بَيْتَ كِسْرَى أَوْ آلِ كِسْرَى، وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ، وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: إِذَا أَعْطَى اللَّهُ أَحَدَكُمْ خَيْرًا، فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ، وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: أَنَا الْفَرَطُ عَلَى الْحَوْضِ "،
حاتم بن اسماعیل نے مہاجر بن مسمار سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی، کہا: میں نے اپنے غلام نافع کے ہاتھ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے پاس خط بھیجا کہ آپ مجھے کوئی ایسی حدیث لکھ بھیجیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے مجھے لکھ بھیجا کہ اس جمعہ کے دن جس کی شام کو حضرت (ماعز) اسلمی رضی اللہ عنہ کو رجم کیا گیا تھا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: "قیامت تک یہ دین قائم رہے گا، یا جب تک مسلمانوں پر بارہ خلفاء حکومت کریں گے جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔" اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کسریٰ یا آل کسریٰ کا سفید محل فتح کرے گی۔" اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے قریب کچھ کذاب ظاہر ہوں گے، ان سے بچنا۔" اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو کوئی اچھی چیز دے تو وہ اپنے اور اپنے گھر والوں سے آغاز کرے۔" اور میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا: "میں حوض پر تمہارا پیش رَو ہوں گا
عامر بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں، میں نے اپنے غلام نافع کے ہاتھ، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہما کو لکھا، مجھے کوئی ایسی بات بتائیے، جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، تو انہوں نے مجھے لکھ بھیجا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کی شام جس دن آپ نے (ماعز) اسلمی کو رجم کروایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، دین قیامت تک قائم رہے گا یا تم پر بارہ (12) خلیفے حکمران ہوں گے سب قریش سے ہوں گے۔ اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا، مسلمانوں کا ایک دستہ، کسریٰ یا آل کسریٰ کے گھر سفید محل کو فتح کرے گی۔ اور میں نے آپ سے یہ بھی سنا: قیامت سے پہلے جھوٹے ہوں گے، ان سے بچ کر رہنا۔ اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال و دولت سے نوازے، تو سب سے پہلے اسے اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے، اور میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: میں حوض پر پیش رو ہوں گا۔
حدیث نمبر: 4712
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا ابن ابي فديك ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن مهاجر بن مسمار ، عن عامر بن سعد ، انه ارسل إلى ابن سمرة العدوي حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول، فذكر نحو حديث حاتم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ سَمُرَةَ الْعَدَوِيِّ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ حَاتِمٍ.
ابن ابی ذئب نے مہاجر بن مسمار سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن سعد سے روایت کی کہ انہوں نے ابن سمرہ عدوی رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی، وہ ہمیں بیان کیجیے۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔۔ پھر حاتم کی حدیث کی طرح بیان کیا
حضرت عامر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن سمرہ عدوی رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ حدیث سنائیں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، آگے مذکورہ بالا حاتم کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
2. باب الاِسْتِخْلاَفِ وَتَرْكِهِ:
2. باب: خلیفہ بنانے اور اس کو چھوڑنے کا بیان۔
Chapter: Appointing a successor or not doing so
حدیث نمبر: 4713
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال: " حضرت ابي حين اصيب، فاثنوا عليه، وقالوا: جزاك الله خيرا، فقال: راغب وراهب، قالوا: استخلف، فقال: اتحمل امركم حيا وميتا، لوددت ان حظي منها الكفاف لا علي، ولا لي فإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني يعني ابا بكر، وإن اترككم، فقد ترككم من هو خير مني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: عبد الله فعرفت انه حين ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم غير مستخلف ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " حَضَرْتُ أَبِي حِينَ أُصِيبَ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهِ، وَقَالُوا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، فَقَالَ: رَاغِبٌ وَرَاهِبٌ، قَالُوا: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَتَحَمَّلُ أَمْرَكُمْ حَيًّا وَمَيِّتًا، لَوَدِدْتُ أَنَّ حَظِّي مِنْهَا الْكَفَافُ لَا عَلَيَّ، وَلَا لِي فَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْكُمْ، فَقَدْ تَرَكَكُمْ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ حِينَ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ ".
ہشام کے والد (عروہ) نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب میرے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) زخمی ہوئے تو میں ان کے پاس موجود تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا: "اللہ آپ کو اچھی جزا دے!" انہوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں (بیک وقت) رغبت رکھنے والا اور ڈرنے والا ہوں۔ لوگوں نے کہا: آپ کسی کو اپنا (جانشیں) بنا دیجیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زندگی میں بھی تمہارے معاملات کا بوجھ اٹھاؤں اور مرنے کے بعد بھی؟ مجھے صرف یہ خواہش ہے کہ (قیامت کے روز) اس خلافت سے میرے حصے میں یہ آ جاے کہ (حساب کتاب) برابر سرابر ہو جائے۔ نہ میرے خلاف ہو، نہ میرے حق میں (چاہے انعام نہ ملے، مگر سزا سے بچ جاؤں) اگر میں جانشیں مقرر کروں تو انہوں نے مقرر کیا جو مجھ سے بہتر تھے، یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اگر میں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں تو انہوں نے تمہیں (جانشیں مقرر کیے بغیر) چھوڑ دیا جو مجھ سے (بہت زیادہ) بہتر تھے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ جانشیں مقرر نہیں کریں گے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میرے باپ زخمی ہوئے، تو میں حاضر تھا، لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہا، اللہ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے، انہوں نے کہا، میں اللہ کی نعمتوں کا امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہوں، لوگوں نے کہا، آپ خلیفہ مقرر فرما دیں، انہوں نے کہا، کیا میں تمہارا ذمہ زندگی اور موت دونوں صورتوں میں اٹھاؤں؟ میری تمنا ہے، کہ مجھے خلافت سے برابر برابر چھٹکارا مل جائے، نہ مجھ سے مؤاخذہ ہو اور نہ مجھے اجر و ثواب ملے، اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں، تو مجھ سے بہتر شخصیت یعنی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ جانشین بنا چکے ہیں اور اگر میں تمہیں بغیر جانشین کے رہنے دوں، تو تمہیں اس طرح مجھ سے بہتر شخصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ چکے ہیں۔
حدیث نمبر: 4714
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وابن ابي عمر ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد والفاظهم متقاربة، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني سالم ، عن ابن عمر ، قال: " دخلت على حفصة، فقالت: اعلمت ان اباك غير مستخلف، قال: قلت: ما كان ليفعل، قالت: إنه فاعل، قال: فحلفت اني اكلمه في ذلك، فسكت حتى غدوت ولم اكلمه، قال: فكنت كانما احمل بيميني جبلا حتى رجعت، فدخلت عليه، فسالني عن وانا اخبره حال الناس، قال: ثم قلت له: إني سمعت الناس، يقولون مقالة، فآليت ان اقولها لك زعموا انك غير مستخلف، وإنه لو كان لك راعي إبل او راعي غنم ثم جاءك وتركها رايت ان قد ضيع، فرعاية الناس اشد، قال: فوافقه قولي، فوضع راسه ساعة ثم رفعه إلي، فقال " إن الله عز وجل يحفظ دينه، وإني لئن لا استخلف، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف، وإن استخلف فإن ابا بكر قد استخلف، قال: فوالله ما هو إلا ان ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، فعلمت انه لم يكن ليعدل برسول الله صلى الله عليه وسلم، احدا وانه غير مستخلف ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد وألفاظهم متقاربة، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَالَتْ: أَعَلِمْتَ أَنَّ أَبَاكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِيَفْعَلَ، قَالَتْ: إِنَّهُ فَاعِلٌ، قَالَ: فَحَلَفْتُ أَنِّي أُكَلِّمُهُ فِي ذَلِكَ، فَسَكَتُّ حَتَّى غَدَوْتُ وَلَمْ أُكَلِّمْهُ، قَالَ: فَكُنْتُ كَأَنَّمَا أَحْمِلُ بِيَمِينِي جَبَلًا حَتَّى رَجَعْتُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْ وَأَنَا أُخْبِرُهُ حَالِ النَّاسِ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُ: إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ، يَقُولُونَ مَقَالَةً، فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَكَ زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ، وَإِنَّهُ لَوْ كَانَ لَكَ رَاعِي إِبِلٍ أَوْ رَاعِي غَنَمٍ ثُمَّ جَاءَكَ وَتَرَكَهَا رَأَيْتَ أَنْ قَدْ ضَيَّعَ، فَرِعَايَةُ النَّاسِ أَشَدُّ، قَالَ: فَوَافَقَهُ قَوْلِي، فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً ثُمَّ رَفَعَهُ إِلَيَّ، فَقَالَ " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ، وَإِنِّي لَئِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدِ اسْتَخْلَفَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَعْدِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدًا وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ ".
سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا: میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: کیا تم کو علم ہے کہ تمہارے والد کسی کو (اپنا) جانشیں مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا: وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ کہنے لگیں: وہ یہی کرنے والے ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے قسم کھائی کہ میں اس معاملے میں ان سے بات کروں گا، پھر میں خاموش ہو گیا حتی کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے اس معاملے میں بات نہیں کی تھی، اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں نے اپنے دائیں ہاتھ میں پہاڑ اٹھایا ہوا ہے (مجھ پر اپنی قسم کا بہت زیادہ بوجھ تھا) آخر کار میں واپس آیا اور ان کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا، میں آپ کو حالات سے باخبر کرنے لگا، پھر میں نے ان سے کہا: میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی اور وہ سن کر میں نے قسم کھائی کہ وہ میں آپ سے ضرور بیان کروں گا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشیں نہیں بنائیں گے اور بات یہ ہے کہ اگر آپ کا کوئی اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا ہو اور وہ آپ کے پاس چلا آئے اور ان کو ایسے ہی چھوڑ دے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر دیا ہے۔ سو لوگوں کی نگہبانی تو اس سے زیادہ ضروری ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میری رائے ٹھیک معلوم ہوئی، انہوں نے گھڑی بھر سر جھکائے رکھا، پھر میری طرف سر اٹھا کر فرمایا: بلاشبہ اللہ عزوجل اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور اگر میں کسی کو جانشیں نہ بناؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو جانشیں مقرر نہیں کیا تھا اور اگر میں کسی کو جانشیں بناؤں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جانشیں بنایا تھا۔ (دونوں میں سے کسی بھی مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے۔) انہوں (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ کی قسم! جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو میں نے جان لیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے کبھی نہیں ہٹیں گے اور وہ کسی کو جانشیں بنانے والے نہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے، تمہارے باپ کسی کو جانشین مقرر نہیں کر رہے؟ میں نے کہا، وہ ایسا نہیں کریں گے، انہوں نے کہا، وہ ایسا ہی کریں گے، تو میں نے قسم اٹھائی، کہ میں اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کروں گا، لیکن میں خاموش رہا، حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور میں نے ان سے گفتگو نہ کی اور قسم اٹھانے کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، گویا کہ میں پہاڑ اٹھائے ہوئے ہوں، حتیٰ کہ میں واپس آ کر ان کے پاس حاضر ہوا، تو انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دریافت کیا اور میں نے انہیں آگاہ کیا، میں نے ان سے پوچھا، میں نے لوگوں سے ایک بات سنی ہے اور میں نے قسم اٹھائی ہے، کہ وہ میں آپ کو بتاؤں گا، لوگوں کا خیال ہے، آپ خلیفہ مقرر نہیں کر رہے اور صورت حال یہ ہے، اگر آپ کے اونٹوں کا کوئی چرواہا ہو یا آپ کی بکریوں کا چرواہا ہو، پھر وہ انہیں چھوڑ کے آپ کے پاس آ جائے اور آپ کی رائے میں اس نے ان کو ضائع کر دیا ہو گا، تو لوگوں کی نگرانی کا معاملہ تو بڑا سنگین ہے اور انہوں نے میری موافقت کی اور کچھ دیر کے لیے اپنا سر جھکا لیا، پھر اسے اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، اللہ عزوجل اپنے دین کا محافظ ہے، وہ حفاظت کرے گا اور اگر میں خلیفہ نہ بناؤں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں بنایا تھا اور اگر خلیفہ مقرر کروں تو ابوبکر خلیفہ بنا چکے ہیں، اللہ کی قسم! جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کا ذکر کیا، تو مجھے یقین ہو گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو قرار نہیں دیں گے اور وہ خلیفہ مقرر نہیں کریں گے۔
3. باب النَّهْيِ عَنْ طَلَبِ الإِمَارَةِ وَالْحِرْصِ عَلَيْهَا:
3. باب: امارت کی درخواست اور حرص کرنا منع ہے۔
Chapter: The prohibition of seeking or desiring a position of authority
حدیث نمبر: 4715
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثنا الحسن ، حدثنا عبد الرحمن بن سمرة ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عبد الرحمن: " لا تسال الإمارة، فإنك إن اعطيتها عن مسالة اكلت إليها، وإن اعطيتها عن غير مسالة اعنت عليها "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ: " لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ أُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا "،
جریر بن حازم نے کہا: ہمیں حسن بصری نے اور انہیں عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "عبدالرحمٰن! امارت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر تم کو طلب کرنے سے (امارت) ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے (اس کی تمام تر ذمہ داریاں خود اٹھاؤ گے، اللہ کی مدد شامل نہ ہو گی) اور اگر تمہیں مانگے بغیر ملی تو (اللہ کی طرف سے) تمہاری اعانت ہو گی
حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے عبدالرحمٰن! امارت کا سوال نہ کرنا، کیونکہ اگر وہ تمہیں طلب کرنے کی بنا پر دی گئی، تو تمہیں اس کے سپرد کر دیا جائے گا اور تمہیں وہ بلا طلب ملی، تمہاری اعانت کی جائے گی۔
حدیث نمبر: 4716
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
یونس بن عبید، منصور، حمید اور ہشام بن حسان سب نے حسن بصری سے، انہوں نے حضرت عبدالرحمان بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جریر کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے مختلف اساتذہ کی اسانید سے، جریر کی حدیث کی طرح ہی بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4717
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن العلاء ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد بن عبد الله ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم انا ورجلان من بني عمي، فقال احد الرجلين: يا رسول الله، امرنا على بعض ما ولاك الله عز وجل، وقال الآخر مثل ذلك: فقال: إنا والله لا نولي على هذا العمل احدا ساله ولا احدا حرص عليه ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِي عَمِّي، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِّرْنَا عَلَى بَعْضِ مَا وَلَّاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَ ذَلِكَ: فَقَالَ: إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ ".
برید بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے ابوبردہ سے، انہوں نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں اور میرے چچا کے بیٹوں میں سے دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کی تولیت میں جو دیا اس کے کسی حصے پر ہمیں امیر بنا دیجیے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا۔ آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمہ داری نہیں دیتے جو اس کو طلب کرے، نہ ایسے شخص کو بناتے ہیں جو اس کا خواہش مند ہو
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ میں اور میرے دو چچا زاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ان میں سے ایک نے کہا، اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے جو امور آپ کے سپرد کیے ہیں، ان میں سے کوئی ایک ہمارے سپرد فرما دیں اور دوسرے نے بھی یہی بات کہی، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم، (اللہ کی قسم)! یہ کام (عہدہ و منصب) کسی ایسے فرد کے سپرد نہیں کرتے (اس کو والی مقرر نہیں کرتے) جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو۔
حدیث نمبر: 4718
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبيد الله بن سعيد ، ومحمد بن حاتم واللفظ لابن حاتم، قالا: حدثنا يحيي بن سعيد القطان ، حدثنا قرة بن خالد ، حدثنا حميد بن هلال ، حدثني ابو بردة ، قال: قال ابو موسى : اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين احدهما، عن يميني والآخر عن يساري، فكلاهما سال العمل والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، فقال: " ما تقول يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس؟، قال: فقلت: والذي بعثك بالحق ما اطلعاني على ما في انفسهما وما شعرت انهما يطلبان العمل، قال وكاني انظر إلى سواكه تحت شفته وقد قلصت، فقال: لن او لا نستعمل على عملنا من اراده ولكن اذهب انت يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس، فبعثه على اليمن ثم اتبعه معاذ بن جبل، فلما قدم عليه، قال: انزل والقى له وسادة، وإذا رجل عنده موثق، قال: ما هذا؟، قال: هذا كان يهوديا، فاسلم ثم راجع دينه دين السوء، فتهود، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله، فقال: اجلس نعم، قال: لا اجلس حتى يقتل قضاء الله ورسوله ثلاث مرات، فامر به فقتل، ثم تذاكرا القيام من الليل، فقال احدهما معاذ: اما انا فانام واقوم وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي ".حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى : أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ أَحَدُهُمَا، عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي، فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ، فَقَالَ: " مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ وَقَدْ قَلَصَتْ، فَقَالَ: لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ، قَالَ: انْزِلْ وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ: مَا هَذَا؟، قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا، فَأَسْلَمَ ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السَّوْءِ، فَتَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَقَالَ: اجْلِسْ نَعَمْ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ، ثُمَّ تَذَاكَرَا الْقِيَامَ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا مُعَاذٌ: أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي ".
حمید بن ہلال نے کہا: مجھے ابوبردہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بنو اشعر میں سے دو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایک میری دائیں جانب تھا اور دوسرا میری بائیں جانب۔ ان دونوں نے کسی منصب کا سوال کیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: "ابوموسیٰ!" یا فرمایا: "عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟" میں نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! ان دونوں نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ اور نہ مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ دونوں منصب کا سوال کریں گے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ میں (آج بھی) آپ کے ہونٹ کے نیچے مسواک دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ کا ہونٹ اوپر کو سمٹا ہوا تھا، آپ نے فرمایا: "جو شخص خواہش مند ہو گا ہم اسے اپنے کسی کام کی ذمہ داری نہیں یا (فرمایا:) ہرگز نہیں دیں گے لیکن ابو موسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم (ذمہ داری سنبھالنے کے لیے) چلے جاؤ۔" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیج دیا، پھر (ساتھ ہی) ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا، جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: تشریف لائیے اور ان کے بیٹھنے کے لیے ایک گدا بچھایا، تو وہاں اس وقت ایک شخص رسیوں سے بندھا ہوا تھا، انہوں (حضرت معاذ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: یہ کون ہے؟ (حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا: ایک یہودی تھا، پھر یہ مسلمان ہو گیا اور اب پھر اپنے دین، برائی کے کے دین پر لوٹ گیا ہے اور یہودی ہو گیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس کو قتل نہ کر دیا جائے، یہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، (ہم اس کو قتل کرتے ہیں) آپ بیٹھیے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس شخص کو قتل نہیں کر دیا جاتا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے، تین (مرتبہ یہی مکالمہ ہوا) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، اس شخص کو قتل کر دیا گیا، پھر ان دونوں نے آپس میں رات کے قیام کے بارے میں گفتگو کی۔ دونوں میں سے ایک (یعنی) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں اپنے قیام میں جس اجر کی امید رکھتا ہوں اپنی نیند میں بھی اسی (اجر) کی توقع رکھتا ہوں
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور میرے ساتھ دو اشعری آدمی تھے، ان میں سے ایک میری دائیں طرف اور دوسرا میری بائیں جانب تھا، دونوں نے عہدہ کا سوال کیا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا، اس ذات کی قسم، جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، مجھے ان دونوں نے اپنے دل کی بات سے باخبر نہیں کیا تھا اور نہ میں نے جانا کہ یہ دونوں عہدہ کے طالب ہیں اور میں گویا کہ آپ کی مسواک آپ کے ہونٹ تلے دیکھ رہا ہوں اور وہ سکڑ چکا ہے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ہرگز اپنا عمل (عہدہ و منصب) اس کے سپرد نہیں کریں گے، نہیں کرتے ہیں، جو اس کا خواہشمند ہو، لیکن، تو اے ابو موسیٰ یا اے عبداللہ بن قیس، جا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یمن کا عامل مقرر فرمایا، پھر ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیج دیا، تو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ، ان کے پاس پہنچے، حضرت ابو موسیٰ نے کہا، اترئیے اور انہیں تکیہ پیش کیا اور ان کے پاس ایک آدمی جکڑا ہوا موجود تھا، حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، یہ کون ہے؟ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، یہ یہودی تھا اور مسلمان ہو گیا، پھر اپنے برے دین کی طرف لوٹ گیا ہے اور یہودی بن گیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا، میں نہیں بیٹھوں گا، اللہ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آپ بیٹھیں، ہم آپ کی بات پر عمل کرتے ہیں، انہوں نے تین دفعہ کہا، جب تک اسے قتل نہیں کیا جاتا، میں نہیں بیٹھوں گا، اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے، تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، پھر دونوں نے باہمی رات کے قیام کے بارے میں گفتگو کی، تو ان میں سے ایک حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، رہا میں، تو میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور اپنی نیند میں بھی اس اجر کی امید رکھتا ہوں، جس کی امید اپنے قیام میں رکھتا ہوں۔
4. باب كَرَاهَةِ الإِمَارَةِ بِغَيْرِ ضَرُورَةٍ:
4. باب: بے ضرورت حاکم بننا اچھا نہیں ہے۔
Chapter: It is disliked to be appointed to a position of authority unnecessarily
حدیث نمبر: 4719
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي شعيب بن الليث ، حدثني الليث بن سعد ، حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن بكر بن عمرو ، عن الحارث بن يزيد الحضرمي ، عن ابن حجيرة الاكبر ، عن ابي ذر ، قال: " قلت: يا رسول الله، الا تستعملني، قال: فضرب بيده على منكبي ثم، قال يا ابا ذر: إنك ضعيف، وإنها امانة وإنها يوم القيامة خزي وندامة، إلا من اخذها بحقها وادى الذي عليه فيها ".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ الْأَكْبَرِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِي ثُمَّ، قَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ: إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا ".
ابن حجیرہ اکبر نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: "ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔ (وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! کیا کوئی کام میرے سپرد نہیں فرمائیں گے؟ (مجھے کوئی منصب عنایت نہیں فرمائیں گے) تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارا پھر فرمایا: اے ابوذر! تو ضعیف (کمزور) ہے اور یہ ایک امانت (ذمہ داری) ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث بنے گی، مگر جس نے اس کے حق کا پاس کرتے ہوئے لیا اور اس کے سبب اس کی جو ذمہ داری ہے، اس کو پورا کیا۔
حدیث نمبر: 4720
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم كلاهما، عن المقرئ، قال زهير: حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا سعيد بن ابي ايوب ، عن عبيد الله بن ابي جعفر القرشي، عن سالم بن ابي سالم الجيشاني، عن ابيه ، عن ابي ذر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يا ابا ذر، إني اراك ضعيفا وإني احب لك ما احب لنفسي لا تامرن على اثنين ولا تولين مال يتيم ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كلاهما، عَنْ الْمُقْرِئِ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي سَالِمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلَا تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ ".
ابو سالم جیشانی نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوذر! میں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور ہو اور میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جسے اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تم کبھی دو آدمیوں پر امیر نہ بننا اور نہ یتیم کے مال کے متولی بننا
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! میں تمہیں کمزور دیکھ رہا ہوں اور میں تیرے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور نہ یتیم کے مال کا نگران بننا۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.