ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے مہینے میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے تراویح پڑھی تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے“۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے نماز تہجد پڑھی تو اس کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا، اس کے بھی گزرے ہوئے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني ابو سهيل، عن ابيه , انه سمع طلحة بن عبيد الله، يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اهل نجد ثائر الراس , يسمع دوي صوته , ولا يفهم ما يقول حتى دنا , فإذا هو يسال عن الإسلام؟ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس صلوات في اليوم والليلة"، قال: هل علي غيرهن؟ قال:" لا , إلا ان تطوع"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وصيام شهر رمضان"، قال: هل علي غيره؟ قال:" لا , إلا ان تطوع"، وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل علي غيرها؟ قال:" لا , إلا ان تطوع"، فادبر الرجل وهو، يقول: لا ازيد على هذا ولا انقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افلح إن صدق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ ثَائِرَ الرَّأْسِ , يُسْمَعُ دَوِيُّ صَوْتِهِ , وَلَا يُفْهَمُ مَا يَقُولُ حَتَّى دَنَا , فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ"، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ:" لَا , إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ"، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ قَالَ:" لَا , إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ"، وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ:" لَا , إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ"، فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ، يَقُولُ: لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل نجد میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب وہ قریب ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”دن رات میں پانچ وقت کی نماز“، اس نے کہا: اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں میرے اوپر؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، سوائے اس کے کہ تم نفل (سنت) پڑھنا چاہو“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے مہینے کے روزے“، اس نے کہا: میرے اوپر اس کے علاوہ کچھ اور بھی روزے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، سوائے اس کے کہ تم نفل ادا کرو“، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاۃ کا ذکر کیا۔ اس نے کہا: میرے اوپر اس کے علاوہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل دینا چاہو“، پھر وہ منہ موڑ کر چلا اور کہہ رہا تھا: نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ کامیاب ہوا“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 459 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: زکاۃ بھی ایمان کے ارکان اور پہچان میں سے ہے اس لیے مؤلف نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن سعيد، عن عطاء بن ميناء، سمع ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" انتدب الله لمن يخرج في سبيله لا يخرجه إلا الإيمان بي , والجهاد في سبيلي انه ضامن حتى ادخله الجنة بايهما كان إما بقتل، وإما وفاة او ان يرده إلى مسكنه الذي خرج منه ينال ما نال من اجر او غنيمة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ يَخْرُجُ فِي سَبِيلِهِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا الْإِيمَانُ بِي , وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِي أَنَّهُ ضَامِنٌ حَتَّى أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ بِأَيِّهِمَا كَانَ إِمَّا بِقَتْلٍ، وَإِمَّا وَفَاةٍ أَوْ أَنْ يَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ يَنَالُ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کی راہ میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا صرف اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے اور اس کی راہ میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ نے ایسے شخص کی) ضمانت اپنے ذمہ لے لی ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی طبعی موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تضمن الله عز وجل لمن خرج في سبيله لا يخرجه إلا الجهاد في سبيلي , وإيمان بي وتصديق برسلي فهو ضامن ان ادخله الجنة , او ارجعه إلى مسكنه الذي خرج منه نال ما نال من اجر او غنيمة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَضَمَّنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِي , وَإِيمَانٌ بِي وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي فَهُوَ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ , أَوْ أُرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ نَالَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ضمانت لی ہے اس شخص کی جو اس کے راستے میں نکلا ہو اور اس کا یہ نکلنا جہاد کے مقصد سے، اللہ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے ہو تو وہ ضامن ہے اس کا کہ اسے جنت میں داخل کرے یا اسے اس کے وطن لوٹا دے جہاں سے وہ نکلا تھا اس اجر یا مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو جو بھی ملا ہو“۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا عباد وهو ابن عباد، عن ابي جمرة، عن ابن عباس، قال: قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: إنا هذا الحي من ربيعة ولسنا نصل إليك إلا في الشهر الحرام , فمرنا بشيء ناخذه عنك وندعو إليه من وراءنا، فقال:" آمركم باربع، وانهاكم عن اربع: الإيمان بالله، ثم فسرها لهم شهادة ان لا إله إلا الله واني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وان تؤدوا إلي خمس ما غنمتم وانهاكم عن الدباء، والحنتم، والمقير، والمزفت". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ وَهُوَ ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ , فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، فَقَالَ:" آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا إِلَيَّ خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُقَيَّرِ، وَالْمُزَفَّتِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی عبدقیس کا وفد آیا، تو ان لوگوں بت کہا: ہم لوگ قبیلہ ربیعہ سے ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں کے علاوہ کبھی نہیں آ سکتے تو آپ ہمیں کچھ باتوں کا حکم دیجئیے جو ہم آپ سے سیکھیں اور جو ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں اسے ان تک پہنچا سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے روکتا ہوں: اللہ پر ایمان -پھر آپ نے اس کی تشریح کی کہ ایک تو گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں - دوسرے نماز قائم کرنا، تیسرے زکاۃ کی ادائیگی، چوتھے یہ کہ مال غنیمت کا پانچواں (خمس) مجھے لا کر دینا، اور میں تمہیں روکتا ہوں: (تمبی) کدو کے بنے پیالے، لاکھی (سبز رنگ) کے برتنوں، لکڑی کے برتنوں اور تار کول ملے ہوئے برتنوں کے استعمال سے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث میں وارد الفاظ میں دباء، حنتم، مزفت، نقیر، مختلف برتنوں کے نام ہیں جس میں زمانہ جاہلیت میں شراب بنائی اور رکھی جاتی تھی جب شراب حرام ہوئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا تھا تاکہ لوگ شراب سے بالکل دور ہو جائیں اور اس حرام چیز کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیں، یہ حکم سد باب کے طور پر تھا، جب مسلمان اس وبا سے دور ہو گئے تو ان برتنوں کے استعمال کی اجازت ہو گئی، بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے «كنت نهيتكم عن الأوعية فاشربوا في كل وعاء» اس حدیث کی رو سے اب سابقہ نہی کا حکم منسوخ ہو گیا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے جائے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے، اس کی نماز جنازہ ادا کرے پھر قبر میں رکھے جانے تک انتظار کرے تو اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے، ایک قیراط جبل احد کی طرح ہو گا، اور جس نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور لوٹ آیا تو اسے صرف ایک قیراط ثواب ملے گا“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا، جو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”اس کو چھوڑ دو، (یعنی اس کو یہ نصیحت کرنی چھوڑ دو) شرم و حیاء تو ایمان میں داخل ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا ابو بكر بن نافع، قال: حدثنا عمر بن علي، عن معن بن محمد، عن سعيد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذا الدين يسر , ولن يشاد الدين احد إلا غلبه فسددوا، وقاربوا، وابشروا، ويسروا، واستعينوا بالغدوة والروحة وشيء من الدلجة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ مَعْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ , وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَيَسِّرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدَّلْجَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دین آسان ہے اور جو دین میں (عملی طور پر) سختی برتے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اسے تھکا دے گا) لہٰذا صحیح راستے پر چلو (اگر مکمل طور سے عمل نہ کر سکو تو کم از کم) دین سے قریب رہو، لوگوں کو دین کے معاملے میں خوش رکھو (نفرت نہ پیدا کرو) انہیں آسانی دو اور صبح و شام اور کچھ رات گئے کی مدد سے اللہ کی عبادت کرو ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا شعيب بن يوسف، عن يحيى وهو ابن سعيد، عن هشام بن عروة، اخبرني ابي، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها , وعندها امراة، فقال:" من هذه؟" , قالت: فلانة لا تنام تذكر من صلاتها، فقال:" مه , عليكم من العمل ما تطيقون فوالله لا يمل الله عز وجل حتى تملوا , وكان احب الدين إليه ما دام عليه صاحبه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا , وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ، فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" , قَالَتْ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ:" مَهْ , عَلَيْكُمْ مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا , وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ان کے پاس ایک عورت تھی، آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ کہا: فلانی ہے، یہ سوتی نہیں، اور وہ اس کی نماز کا تذکرہ کرنے لگیں، آپ نے فرمایا: ”ایسا مت کرو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تم میں سکت اور طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا، لیکن تم (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اسے تو وہ دینی عمل سب سے زیادہ پسند ہے جسے آدمی پابندی سے کرے“۔