الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
Foods (Kitab Al-Atimah)
حدیث نمبر: 3796
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عوف الطائي، ان الحكم بن نافع حدثهم، حدثنا ابن عياش، عن ضمضم بن زرعة، عن شريح بن عبيد، عن ابي راشد الحبراني، عن عبد الرحمن بن شبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن اكل لحم الضب".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ".
عبدالرحمٰن بن شبل اوسی انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9702) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے: - ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبرکے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اگروہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے، ترقی یافتہ دورسے پہلے مشہورہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیرکے ساتھ جاکرمضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے،جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی۔ - ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب(گوہ) ایسانہیں کرتی۔ - ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانورہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے،جب کہ نجدی ضب(گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے، اور کیڑے مکوڑے بھی، نجدی ضب(گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے،لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجودنہیں ہوتا اور اگرہوبھی تومعمولی اور کبھی کبھار، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کوبھی وہ کھاتا ہے۔ - نجدی ضب(گوہ) کی کھال کوپکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو'' ضبة'' کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسااستعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ - نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں)میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے، اور یہ نبی اکرمﷺ کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی، حتی کہ اگرسابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی، اسی کو نبی اکرمﷺ نے اس طرح بیان کیا کہ اگرسابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیارکریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے، اور صحراء نجدکے واقف کار خاص کرضب (گوہ) کاشکارکرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں،اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانورہے، جوضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالواور صحراء میںپایاجاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانورہے،جس کی دم لمبی اور سرچھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل''عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانورہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے،بسااوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے،اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکارکرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے،دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے،اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے،اور یہ صرف ٹڈی،چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹاکرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کواستعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کوتیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانورجس کو گوہ یا سانڈاکہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے،بایں ہمہ نجدی ضب(گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غورکرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کاکھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ''کہتے ہیں،تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیرکے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوںلکھ کر دی: نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ''ورل ''نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے،ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے،ضب چیرپھاڑکرنے والا جانور نہیں ہے،جب کہ ورل چیرپھاڑکرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے،ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے،ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے،اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے،ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے،اور دُم سے شکاربھی کرتا ہے، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے،اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجودہے،وہ دانتوں سے کاٹتا ہے،اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کراور ہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مارکرتا ہے،اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے،ضب میں کچلی دانت نہیں ہے،اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ زہریلا جانورہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانورکے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آجائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑسے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگربھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے،اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پرغورکرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے۔ گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابرہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔(کتاب المفردات: ۴۲۷)، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے، جوگرگٹ یا گلہری کی مانندلیکن اس سے بڑاہوتا ہے،اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات: صفحہ ۲۷۵)

Narrated Abdur Rahman ibn Shibl: The Messenger of Allah ﷺ forbade to eat the flesh of lizard.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3787


قال الشيخ الألباني: حسن
29. باب فِي أَكْلِ لَحْمِ الْحُبَارَى
29. باب: سرخاب کا گوشت کھانے کا بیان۔
Chapter: Eating the meat of bustards.
حدیث نمبر: 3797
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا الفضل بن سهل، حدثنا إبراهيم بن عبد الرحمن ابن مهدي، حدثني بريه بن عمر بن سفينة، عن ابيه، عن جده، قال:" اكلت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لحم حبارى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي بُرَيْهُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:" أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمَ حُبَارَى".
سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (پانی کی چڑیا) سرخاب کا گوشت کھایا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأطعمة 26 (1828)، (تحفة الأشراف: 4482) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی بریہ مجہول الحال ہیں)

Narrated Safinah: I ate the flesh of a bustard along with the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3788


قال الشيخ الألباني: ضعيف
30. باب فِي أَكْلِ حَشَرَاتِ الأَرْضِ
30. باب: زمین پر موجود کیڑوں مکوڑوں کے کھانے کے حکم کا بیان۔
Chapter: Regarding eating the vermin of the land.
حدیث نمبر: 3798
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا غالب بن حجرة، حدثني ملقام بن التلب، عن ابيه، قال:" صحبت النبي صلى الله عليه وسلم فلم اسمع لحشرة الارض تحريما".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ حَجْرَةَ، حَدَّثَنِي مِلْقَامُ بْنُ التَّلِبِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَسْمَعْ لِحَشَرَةِ الْأَرْضِ تَحْرِيمًا".
تلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا لیکن میں نے کیڑے مکوڑوں کی حرمت کے متعلق نہیں سنا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2051) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ملقام مجہول الحال ہیں)

Narrated at-Talabb ibn Thalabah at-Tamimi: I accompanied the Messenger of Allah ﷺ, but I did not hear about the prohibition of (eating) insects and little creatures of land.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3789


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3799
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن خالد الكلبي ابو ثور، حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عيسى بن نميلة، عن ابيه، قال:" كنت عند ابن عمر، فسئل عن اكل القنفذ؟، فتلا: قل لا اجد في ما اوحي إلي محرما سورة الانعام آية 145، قال: قال شيخ عنده: سمعت ابا هريرة، يقول: ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: خبيثة من الخبائث، فقال ابن عمر: إن كان قال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا، فهو كما قال ما لم ندر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ؟، فَتَلَا: قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145، قَالَ: قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خَبِيثَةٌ مِنَ الْخَبَائِثِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، فَهُوَ كَمَا قَالَ مَا لَمْ نَدْرِ".
نمیلہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا آپ سے سیہی ۱؎ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما» اے نبی! آپ کہہ دیجئیے میں اسے اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا ان کے پاس موجود ایک بوڑھے شخص نے کہا: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ ناپاک جانوروں میں سے ایک ناپاک جانور ہے۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو بیشک وہ ایسا ہی ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15494)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/381) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ایک راوی شیخ مبہم ہیں)

وضاحت:
۱؎: بڑے چوہے کی مانند ایک جانور جس کے پورے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں۔

Narrated Abdullah ibn Umar: Numaylah said: I was with Ibn Umar. He was asked about eating hedgehog. He recited: "Say: I find not in the message received by me by inspiration any (meat) forbidden. " An old man who was with him said: I heard Abu Hurairah say: It was mentioned to the Messenger of Allah ﷺ. Noxious of the noxious. Ibn Umar said: If the Messenger of Allah ﷺ had said it, it is as he said that we did not know.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3790


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
31. باب مَا لَمْ يُذْكَرْ تَحْرِيمُهُ
31. باب: ایسی چیزوں کا بیان جن کی حرمت مذکور نہیں۔
Chapter: Things for which no prohibition is mentioned.
حدیث نمبر: 3800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن داود بن صبيح، حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا محمد يعني ابن شريك المكي، عن عمرو بن دينار، عن ابي الشعثاء،عن ابن عباس، قال:" كان اهل الجاهلية ياكلون اشياء ويتركون اشياء تقذرا، فبعث الله تعالى نبيه صلى الله عليه وسلم، وانزل كتابه، واحل حلاله، وحرم حرامه، فما احل فهو حلال، وما حرم فهو حرام، وما سكت عنه فهو عفو، وتلا: قل لا اجد في ما اوحي إلي محرما سورة الانعام آية 145 إلى آخر الآية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ صَبِيحٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ شَرِيكٍ الْمَكِّيَّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا، فَبَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ، وَتَلَا: قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا سورة الأنعام آية 145 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھاتے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا، اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلال کر دی وہ حلال ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: «قل لا أجد فيما أوحي إلى محرما» آپ کہہ دیجئیے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا اخیر تک پڑھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5386) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

Narrated Abdullah ibn Abbas: The people of pre-Islamic times used to eat some things and leave others alone, considering them unclean. Then Allah sent His Prophet ﷺ and sent down His Book, marking some things lawful and others unlawful; so what He made lawful is lawful, what he made unlawful is unlawful, and what he said nothing about is allowable. And he recited: "Say: I find not in the message received by me by inspiration any (meat) forbidden to be eaten by one who wishes to eat it. . . . " up to the end of the verse.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3791


قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
32. باب فِي أَكْلِ الضَّبُعِ
32. باب: بجو کھانے کا بیان۔
Chapter: Regarding eating hyena.
حدیث نمبر: 3801
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله الخزاعي، حدثنا جرير بن حازم، عن عبد الله بن عبيد، عن عبد الرحمن بن ابي عمار، عن جابر بن عبد الله، قال:" سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضبع؟، فقال: هو صيد، ويجعل فيه كبش إذا صاده المحرم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّبُعِ؟، فَقَالَ: هُوَ صَيْدٌ، وَيُجْعَلُ فِيهِ كَبْشٌ إِذَا صَادَهُ الْمُحْرِمُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکڑبگھا (لگڑ بگڑ) ۱؎ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبے کا دم دینا پڑے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الحج 28 (851)، الأطعمة 4 (1792)، سنن النسائی/الحج 89 (2839)، الصید 27 (4328)، سنن ابن ماجہ/المناسک 90 (3085)، الصید 15 (3236)، (تحفة الأشراف: 2381)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/297، 318، 322)، سنن الدارمی/المناسک 90 (1984) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «ضبع»: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعہ» یا «مجفرہ» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکارکرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے «کفتار» اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور «ضبع» سے مراد لکڑبگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربك غفور رحيم» (سورة الأنعام: 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ۵/۱۳۳-۱۳۴)

Narrated Jabir ibn Abdullah: I asked the Messenger of Allah ﷺ about the hyena. He replied: It is game, and if one who is wearing ihram (pilgrim's robe) hunts it, he should give a sheep as atonement.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3792


قال الشيخ الألباني: صحيح
33. باب النَّهْىِ عَنْ أَكْلِ السِّبَاعِ
33. باب: درندہ (پھاڑ کھانے والے جانور) کھانے کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: Eating predators.
حدیث نمبر: 3802
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابي إدريس الخولاني، عن ابي ثعلبة الخشني:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن اكل كل ذي ناب من السبع".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھاڑ کھانے والے جانوروں میں سے ہر دانت والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصید 29 (5530)، الطب 57 (5780)، صحیح مسلم/الصید 3 (1932)، الأطعمة 33 (1932)، سنن الترمذی/الصید 11 (1477)، سنن النسائی/الصید 28 (4330)، 30 (4348) سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3232)، (تحفة الأشراف: 11874)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/193، 194، 195)، سنن الدارمی/ الأضاحی 18 (2023) (صحیح)» ‏‏‏‏

Abu Thalabah al-Khushani said: The Messenger of Allah ﷺ prohibited eating fanged beast of pery.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3793


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3803
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن ميمون بن مهران، عن ابن عباس، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اكل كل ذي ناب من السبع، وعن كل ذي مخلب من الطير".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دانت والے درندے، اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصید 3 (1934)، (تحفة الأشراف: 6506)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الصید 33 (4353)، سنن ابن ماجہ/الصید 13 (3234)، مسند احمد (1/244، 289، 302، 327، 332، 339، 373)، دی/ الأضاحی 18 (2025) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Abbas said: The Messenger of Allah ﷺ prohibited the eating of every beast of prey with fang, and every bird with a talon.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3794


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3804
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى الحمصي، حدثنا محمد بن حرب، عن الزبيدي، عن مروان بن رؤبة التغلبي، عن عبد الرحمن بن ابي عوف، عن المقدام بن معد كرب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الا لا يحل ذو ناب من السباع، ولا الحمار الاهلي، ولا اللقطة من مال معاهد إلا ان يستغني عنها، وايما رجل ضاف قوما فلم يقروه فإن له ان يعقبهم بمثل قراه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَلَا لَا يَحِلُّ ذُو نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَلَا الْحِمَارُ الْأَهْلِيُّ، وَلَا اللُّقَطَةُ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ يَقْرُوهُ فَإِنَّ لَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ".
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! دانت والا درندہ حلال نہیں، اور نہ گھریلو گدھا، اور نہ کافر ذمی کا پڑا ہوا مال حلال ہے، سوائے اس مال کے جس سے وہ مستغنی اور بے نیاز ہو، اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بن کر جائے اور وہ لوگ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اسے یہ حق ہے کہ اس کے عوض وہ اپنی مہمانی کے بقدر ان سے وصول کر لے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11571)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/العلم 10 (2663)، سنن ابن ماجہ/الصید 2 (3234)، مسند احمد (4/132) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Al-Miqdam ibn Madikarib: The Prophet ﷺ said: Beware, the fanged beast of prey is not lawful, nor the domestic asses, nor the find from the property of a man with whom treaty has been concluded, except that he did not need it. If anyone is a guest of people who provide no hospitality for him, he is entitled to take from them the equivalent of the hospitality due to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3795


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3805
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، عن ابن ابي عدي، عن ابن ابي عروبة، عن علي بن الحكم، عن ميمون بن مهران، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن اكل كل ذي ناب من السباع، وعن كل ذي مخلب من الطير".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ الصید 33 (4353)، سنن ابن ماجہ/ الصید 13 (3234)، (تحفة الأشراف: 5639)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/339) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abdullah ibn Abbas: On the day of Khaybar the Messenger of Allah ﷺ prohibited eating every beast of prey, and every bird with a talon.
USC-MSA web (English) Reference: Book 27 , Number 3796


قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.